سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فوکس نیوز کو انٹرویو میں سعودی، امریکی سٹریٹجک پارٹنرشپ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی بات کی ہے اور متنبہ کیا کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو مملکت کو بھی ایسا کرنا ہو گا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ’سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک پارٹنرشپ دونوں کے لیے اہم اور فائدہ مند ہے۔‘عرب نیوز کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کے سینیئر سیاسی براڈ کاسٹر بریٹ بائر کو نیوم میں دیے گئے انٹرویو جو بدھ کی رات نشر کیا گیا، میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے درمیان بہت سے سکیورٹی اور فوجی تعلقات ہیں جو سعودی عرب اور مشرق وسطٰی کی پوزیشن کو مضبوط کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر امریکہ کی پوزیشن کو بھی مضبوط کر رہے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ جب امریکہ کے ساتھ تعلقات پیچیدہ تھے.
اس کے باوجود ان کے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ اچھے تعلقات رہے۔‘ ’سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان آج کا ایجنڈا واقعی دلچسپ ہے اور ہمارے صدر بائیڈن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا ’وہ ( امریکی صدر) تیز ہیں، وہ واقعی ویل فوکسڈ اور اچھی طرح سے تیار ہیں‘۔ ایک سوال پر کہا کہ ’سعودی عرب نے مسلسل دو برسوں میں جی 20 ممالک کی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) کے لحاظ سے تیز ترین نمو حاصل کی ہے۔‘سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’اگر ایران ایٹمی ہتھیار حاصل کرتا ہے تو مملکت کو بھی انہیں حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’مملکت کو کسی بھی ملک کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے یا استعمال کرنے پر تشویش ہے۔‘ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’دنیا ایک نئے ہیروشیما کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بُری حرکت ہے۔ اگر آپ ایٹمی ہتھیار استعمال کرتے ہیں تو آپ کو باقی دنیا کے ساتھ بھی بڑی لڑائی لڑنا پڑے گی۔
‘سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’جوہری ہتھیار رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انہیں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘ شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ بھی کہا کہ ’ہم ہر روز اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف قریب ہوتے جا رہے ہیں۔‘ یہ پوچھے جانے پر کہ ’نارملائزیشن معاہدے کے لیے کیا کرنا پڑے گا۔‘ کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے مسئلہ فلسطین بہت اہم ہے اور ہمیں اسے حل کرنے کی ضروت ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کہاں جاتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں یہ ایک ایسی جگہ پہنچے جس سے فلسطینیوں کی زندگی آسان ہو جائے اور اسرائیل مشرق وسطٰی میں ایک پلیئر کے طور پر آئے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات معطل ہو چکے ہیں تو انہوں نے کہا کہ’ نہیں، یہ سچ نہیں ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر جو بائیڈن انتظامیہ نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کوئی معاہدہ کروایا تو یہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا معاہدہ ہوگا۔‘ ولی عہد نے کہا کہ ’سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے مارچ میں چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے بعد سے تہران کے ساتھ تعلقات اچھی طرح آگے بڑھ رہے ہیں اور امید ہے خطے کی سلامتی اور استحکام کے فائدے کے لیے ایسا کرتے رہیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وژن 2030 کے اصلاحاتی ایجنڈے کا ایک ستون مملکت کو عالمی سیاحتی مقام میں تبدیل کرنا ہے۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری سے سعودی جی ڈی پی میں اس کا حصہ تین فیصد سے بڑھ کر سات فیصد ہو جائے گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اوپیک کا تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ مارکیٹ کے استحکام پر مبنی ہے اور اس کا مقصد روس کو یوکرین میں اپنی جنگ لڑنے میں مدد کرنا نہیں تھا۔‘ ’ہم صرف رسد اور طلب پر نظر رکھتے ہیں۔ اگر رسد کی کمی ہے تو اوپیک پلس میں ہمارا کردار اس کمی کو پوراکرنا ہے۔
اگر ضرورت سے زیادہ سپلائی ہوتی ہے تو مارکیٹ کے استحکام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘ فوکس نیوز نے 11 ستمبر کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے حوالے سے بھی بات کی جن میں 15 سعودی شہری تھے۔ ولی عہد نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’بن لادن نے 1990 کی دہائی میں سعودی عرب کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی اور اس پر عمل درآمد کیا تھا۔‘ ’مملکت میں اس وقت سعودی شہریوں اور غیر ملکی کو مارا گیا۔ وہ ہمارا دشمن ہے اور وہ امریکی دشمن ہے۔‘ طویل انٹرویو میں سعودی معیشت کے تنوع سے لے کر مملکت میں خواتین کو بااختیار بنانے تک کے مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔