(تحریر: علی احمدی) عرب لیگ میں شام کی رکنیت بحال ہو جانے اور خلیجی ریاستوں سے تعلقات میں بہتری آ جانے کے بعد شام کے صدر بشار اسد نے دنیا کی دوسری اقتصادی طاقت یعنی چین کا دورہ کیا ہے۔ جب سے شام میں تکفیری دہشت گردی کا آغاز ہوا اور اس کے نتیجے میں سکیورٹی بحران معرض وجود میں آیا، چین نے شام کے اہم اور بنیادی اتحادی کا کردار ادا کیا ہے۔ حتی بعض اوقات اقوام متحدہ کی قومی سلامتی میں کچھ عالمی طاقتوں کی جانب سے شام کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں کو بھی چین ویٹو کرتا آیا ہے۔ شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر اور حکومت مخالف مسلح گروہوں کے خلاف اسلامی مزاحمتی بلاک کی مدد سے شام حکومت کی کامیابی کے بعد امریکہ کی سربراہی میں مغربی ممالک نے قانون قیصر کے تحت شام کے خلاف شدید اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ ان پابندیوں کا مقصد صدر بشار اسد کی سربراہی میں شام حکومت پر اقتصادی دباو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اسے سفارتی میدان میں بھی گوشہ نشین کرنا تھا۔ لیکن خطے میں کچھ ایسے واقعات اور تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے شام کی کایا پلٹ دی اور اسے شدید اقتصادی، سفارتی اور سیاسی بحران سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کی۔
انہی میں سے ایک چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ تھا جسے "سفارتی زلزلے” سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف شام میں حکومت کی رٹ میں اضافہ ہوتا گیا اور مشرقی فرات میں امریکی فوجیوں پر بھی اسلامی مزاحمتی فورسز کا دباو بڑھتا گیا جس کے نتیجے میں شام حکومت کو سنبھلنے کا مزید موقع میسر آیا۔ یوں خطے کے حالات شام حکومت کے حق میں تبدیل ہونے لگے۔ صدر بشار اسد اپنی بیگم اور خاتون اول اسماء کے ہمراہ تقریباً دو عشروں بعد اعلی سطح کے سیاسی اور اقتصادی وفد کے ہمراہ چین کے شہر ہوانگ جائے میں داخل ہوئے۔ چینی ذرائع ابلاغ کے بقول انہوں نے ہوانگ جائے میں ایشین گیمز کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے چین کے صدر جین پینگ سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ صدر بشار اسد کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہو گا اور اس کا نتیجہ چین اور شام کے درمیان اقتصادی تعاون میں اضافے کے ساتھ ساتھ جنگ سے تباہ حال ملک شام میں چینی سرمایہ کاری میں بھی اضافے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اگرچہ شام حکومت دہشت گرد عناصر اور مسلح علیحدگی پسندوں پر غلبہ پانے میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن ابھی تک تعمیر نو کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا۔ شام میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کا کام سست روی کا شکار ہو جانے اور عوام کا شدید اقتصادی مشکلات سے روبرو ہونے نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور شام کے درمیان تعلقات کا فروغ اس ملک کو اقتصادی بحران سے نکلنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اربوں ڈالر بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں تعمیر نو کے کام میں بھی تیزی آئے گی اور تیزی سے بڑھتی مہنگائی کو بھی لگام ڈالی جا سکے گی تاکہ ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت کو روکا جا سکے۔ 2017ء میں چینی حکام نے شام میں 2 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔ گذشتہ برس شام حکومت کی جانب سے جاری کردہ بیانیے میں کہا گیا تھا کہ وہ باقاعدہ طور پر "ون بیلٹ ون روڈ” منصوبے میں شامل ہو گیا ہے۔
یہ ایک اہم پیشرفت ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شام کی شمولیت ایک طرف خطے میں اپنا اسٹریٹجک اثرورسوخ بڑھانے میں چین کی مدد کرے گی جبکہ دوسری طرف لاذقیہ اور طرطوس بندرگاہیں براہ راست طور پر مشرقی میڈیٹرینین خطے سے متصل ہو جائیں گی۔ صدر بشار اسد کا حالیہ دورہ چین درحقیقت مغربی ایشیا کے روشن مستقبل کی عکاسی کرتا ہے۔ تقریباً سات ماہ قبل چین کے صدر نے خطے کی نئی ابھرتی طاقت کے طور پر بیجنگ میں ایران اور سعودی عرب کے سکیورٹی حکام کے درمیان مذاکراتی نشست کا انعقاد کیا۔ یہ نشست تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات میں لگی گرہ کھلنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ شام اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کا ایکدوسرے کے ممالک کا دورہ انجام پانے کے بعد شام کے صدر بشار اسد کے تاریخی دورہ سعودی عرب کا زمینہ فراہم ہوا اور یوں شام عرب لیگ میں باقاعدہ طور پر واپس پلٹ آیا۔ اب شام کے صدر بشار اسد کے دورہ چین نے ان کیلئے اور مغربی ایشیا کے تمام حکمرانوں کیلئے یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ بیجنگ کے تعاون سے "ون بیلٹ ون روڈ” نامی تجارتی روٹ پر توجہ مرکوز کریں اور آپس میں الجھنے کی بجائے باہمی اقتصادی تعاون اور مستحکم ترقی کی جانب قدم بڑھائیں۔ یہ خطے کے تمام ممالک کیلئے ایک عظیم کامیابی ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے نتیجے میں مغربی ایشیا چین کی مصنوعات کا یورپی اور افریقی منڈیوں تک ارسال کا اہم روٹ بن جائے گا جبکہ خطے کے ممالک چین کو گیس اور تیل بھی فروخت کر سکیں گے۔ دوسری طرف چینی حکام دنیا کی ایک ترقی یافتہ اقتصادی طاقت ہونے کے ناطے خطے کے ممالک میں ٹرانسپورٹیشن سے متعلق انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کا کام انجام دیں گے۔ یہیں سے خطے کے روشن مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز ن
وٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔