پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف تقریباً چار سال بعد 21 اکتوبر کو لندن سے پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ اس بات کا اعلان پارٹی کے صدر شہباز شریف نے کیا تھا۔ اس وقت پوری کی پوری مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ روزانہ ہونے والے اجلاس اور کارنر میٹنگز میں حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے اور تیاریوں کو حتمی شکل بھی دی جا رہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنے قائد کے استقبال کے لیے ملک بھر میں لیڈروں کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں۔ (ن) لیگ کی طرف سے تفصیلات جاری ہونے کے بعد پنجاب میں ایک دلچسپ صورت حال بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ پارٹی نے پنجاب کی تمام ڈویژنز اور اضلاع کے لیے کوآرڈینیٹرز کا اعلان بھی کیا ہے۔ لاہور جس کو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور جہاں سے اس جماعت کی بیشتر قیادت کا تعلق بھی ہے، وہاں کی لیڈرشپ کی ڈیوٹیاں لاہور سے باہر مختلف علاقوں میں لگائی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق جو لاہور میں مسلم لیگ (ن) کا اہم ستون سمجھے جاتے ہیں ان کو راولپنڈی ڈویژن کا کوآرڈینیٹرمقرر کیا گیا ہے، حالانکہ ان کا حلقہ لاہور میں ہے اور وہ ان لیڈرز میں سے ایک ہیں جو اپنے حلقے میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ انہوں نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو بھی الیکشن میں شکست دی تھی۔ اسی طرح رانا مشہود کو گوجرانوالہ کا کوآرڈینیٹر بنایا گیا ہے۔ وہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی رہے ہیں۔ ایاز صادق کو بہاولپور کا کوآرڈینیٹر لگایا گیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ لاہور کا کوآرڈینیٹر کون ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ سعود مجید کو لاہور کی ذمہ داری سوپنی گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) لاہور کی پارٹی کی باگ ڈور اس وقت کھوکھر فیملی کے پاس ہے اس لیے لاہور کے انتظامات سیف الملوک کھوکھر ہی دیکھ رہے ہیں جنہوں نے پارٹی اجلاسوں میں اعلان کیا ہے کہ وہ ایک لاکھ افراد لے کر آئیں گے۔
چونکہ پارٹی کی لاہور کی صدارت ایک بڑا سیاسی مسئلہ رہی ہے، خواجہ سعد رفیق گروپ رانا مشہود کو لاہور کا صدر بنوانا چاہتا تھا تاہم ایسا نہ ہوسکا اور مریم نواز نے چیف کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے سیف الملوک کھوکھر کو لاہور کا صدر بنا دیا اور ایک طرح سے لاہور کی پرانی قیادت اس پر قدرے ناخوش بھی ہے۔ خیال رہے کہ کھوکھر برادران کی قربت شریف خاندان کے ساتھ پچھلے کچھ سالوں میں سامنے آئی ہے۔ جب لاہور ہائی کورٹ نے سات کروڑ نقد رقم کے بدلے مریم نواز اور نواز شریف کو ضمانت دی تو وہ پیسے سیف الملوک کھوکھر نے عدالت میں جمع کروائے تھے۔ اس کے علاوہ مریم نواز کی لندن سے واپسی پر ان کے استقبال کے لیے بھی سیف الملوک کھوکھر نے لاہور ائیرپورٹ پر ایک بڑا مجمع اکھٹا کر لیا تھا۔ اس سے بھی ان کے پارٹی کے اندر اثرورسوخ میں اضافہ ہوا۔ اس حوالے سے جب رانا مشہود سے پوچھا گیا کہ نواز شریف کے استقبال کے لیے پرانی قیادت کو ذمہ داری کیوں نہیں دی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر سراسر غلط ہے۔ اصل میں لاہور میں تو خود مریم نواز صاحبہ اور حمزہ شہباز موجود ہیں۔ وہ انتظامات خود دیکھ رہے ہیں۔ اس وجہ سے دوسری قیادت کو پنجاب کے دوسرے علاقوں کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے خود گوجرانوالہ دیا گیا ہے اور ہم بھرپور طریقے سے کام کر رہے ہیں۔‘
پارٹی کے اندر اختلافات کے تاثر کو رد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’لاہور میں ہماری ٹیمیں صدر سیف الملوک کھوکھر کی ٹیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ اگلے چند دنوں میں گہما گہمی بڑھے گی کیونکہ ایک بڑا استقبال ہونے جا رہا ہے۔‘ یاد رہے کہ دسمبر 2020 میں جب پی ڈی ایم نے لاہور کے مینار پاکستان پر جلسہ کیا تھا اور نواز شریف نے اس جلسے سے ٹیلیفونک خطاب کیا تھا تو اس کو سیاسی مبصرین ایک بڑے سیاسی شو سے تعبیر نہیں کر رہے تھے۔ اس کی وجہ بھی اس وقت مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی لاہور کی صدارت کے لیے رسہ کشی بتائی گئی تھی۔ بہرحال موجودہ صورت حال میں کیا حقیقت ہے اور کیا محض تاثر، اس کا اندازہ نواز شریف کی واپسی کے موقع پر استقبال سے ہی ہو گا۔