(تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی)
صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اعلیٰ امریکی حکام اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے درمیان کئی مہینوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب "ابراہیم” معاہدے میں شامل ہونے کے لئے مکمل تیار ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ فریقین کی پوزیشنیں اور مواقف ایک دوسرے کے قریب آچکے ہیں۔ اسی دوران سعودی سیاسی وفد نے فلسطین کی خود مختار انتظامیہ کے حکام سے بات چیت کے لیے تین دہائیوں کے بعد پہلی بار مغربی کنارے کا سفر کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدام فلسطینیوں کے لیے ایک یقین دہانی کا پیغام ہے، جو آنے والے وقت سے پریشان ہیں۔ البتہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی بحالی پر عرب دنیا اور فلسطینی قوم کی رائے عامہ کی وسیع مخالفت نے سعودیوں کا راستہ مشکل بنا دیا ہے۔
اس آرٹیکل میں سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی مختلف جہتوں کا جائزہ لینے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں سعودیوں نے بہت سے دوغلے موقف اختیار کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں اس کا خلاصہ سامنے آیا، جبکہ سعودی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں عرب امن منصوبے پر کاربند رہنے کی بات کہی جبکہ بن سلمان نے امریکیوں اور صیہونیوں کے ساتھ مذاکرات کو پیش رفت قرار دیا۔ بن سلمان صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عوض سعودی عرب میں یورینیم کی افزودگی کے لیے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے سمیت اسٹریٹجک رعایتیں حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دوسری طرف سعودی حکام دنیا میں اپنا امیج برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے وہ لیڈر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لہٰذا اس تناظر میں اپنے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے صرف مذاکرات پر انحصار نہیں کیا بلکہ وہ اب بھی متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب علاقائی اور ماورائے علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں مثبت توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے انہوں نے روسی ایٹم کمپنی اور چینیوں سے بھی بات چیت کی ہے۔ ان تمام پیشرفتوں نے واشنگٹن اور تل ابیب کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ریاض کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے اور ایک طرح سے وہ امریکیوں کے ساتھ صیہونی حکومت کا کارڈ کھیل رہا ہے اور سعودی وفد کا مغربی کنارے کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سعودی حکام متحدہ عرب امارات کے برعکس فلسطینیوں سے کم از کم کچھ حمایت حاصل لینا چاہتے ہیں۔
اسلامی دنیا میں اپنا امیج برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب فلسطین میں دو حکومتوں کی تشکیل(دو ریاستی) کا ورژن پیش کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ منصوبہ فلسطینی قوم کے بنیادی مطالبات اور شرائط سے بہت دور ہے۔ اگر فلسطینی حکومت مختصر مدت میں اپنے وجود کا اعلان کرتی ہے تو اس سے سعودی حکمرانوں کو سعودی عرب کے اندر موجود رائے عامہ کو معمول پر لانے کے عمل کا جواز فراہم کرنے کا موقع ملے گا۔ دوسری جانب مقبوضہ علاقوں کے اندر صیہونی کابینہ انتہاء پسند ہے اور داخلی سلامتی کے وزیر Itamar Ben Guer اور وزیر خزانہ Bezalel Smutrich جیسے لوگ اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں کے ساتھ سعودی تجاویز سے اتفاق نہیں کریں گے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اب فلسطینی عوام مزاحمتی گروہوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور انہوں نے صیہونیوں کے خلاف جو خصوصی کارروائیاں انجام دی ہیں، ان سے مزاحمت کا بلاک مضبوط ہوگیا ہے اور وہ کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی کابینہ اور صہیونی معاشرے کی صورت حال انتہائی گھمبیر ہے اور یہاں تک کہ خانہ جنگی کا بھی امکان ہے۔ لہٰذا عمومی طور پر سعودیوں کی جانب سے جو ورژن تجویز کیا جائے گا، مزاحمتی اور صہیونی انتہاء پسندوں کی طرف سے اس کا خیر مقدم نہیں کیا جائے گا اور تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل جلد پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا۔اگر ہم معاملے کو دوسرے پہلو سے دیکھیں تو سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کہانی میں جغرافیائی اور اقتصادی مسائل بہت نمایاں ہیں، خاص طور پر تجارتی راہداری کا منصوبہ جو ہندوستان سے شروع ہوتا ہے اور متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے ہوتا ہوا اسرائیل کی بندرگاہوں تک جاتا ہے۔
ماہرین اس منصوبے کو بنیادی طور پر چین کے روڈ بیلٹ پلان کا مقابلہ کرنے کا ایک امریکی منصوبہ سمجھتے ہیں، جبکہ سعودی عرب بھی چینی منصوبے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہندوستان اور امریکہ کی طرف سے حال ہی میں جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے، وہ لاگت کی تاثیر، راستوں کی پیچیدگی، اقتصادی مسائل اور نقل و حمل کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ البتہ امریکہ اس سے کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، سب سے پہلے وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن چین کی شاہراہ ریشم کی تعمیر کو روک کر بھارت اور چین کے درمیان اسٹریٹجک تصادم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ البتہ اس کے اخراجات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جیبوں سے ادا کیے جائیں گے۔
دوسری طرف متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جو حال ہی میں برکس کے رکن بنے ہیں، جس پر امریکہ نالاں ہے۔ امریکہ اس طرح کے اقدامات سے برکس کا حریف پیدا کرنا چاہتا ہے، تاکہ اس کی عالمی توسیع کو روکا جا سکے۔صیہونی حکومت مغربی ایشیاء میں موجود ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہندوستان تا یورپ اس مجوزہ راہداری پر عمل درآمد ہو، کیونکہ اس راہداری میں نقل و حمل سستی نہیں ہے، نیز ماہرین کے مطابق امریکی منصوبے کی تعمیر کی تجویز عملی نہیں ہے اور سعودی اس مسئلے کو جانتے ہوئے اس منصوبے کو امریکہ کے ساتھ پلے کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
بعض سعودی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ تعلقات کو معمول پر لا کر سعودی عرب ایک ایسی سمت بڑھ رہا ہے، جس کا حتمی ہدف معلوم نہیں ہے، کیونکہ عوام اس منصوبے سے متفق نہیں ہیں۔ بن سلمان کے اندرونی مخالفین اور حریفوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ولی عہد کی نوجوانوں کو اپنے منصوبوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں ان کی اپنی حکومت کے تخت کی بقا کے لیے ہیں اور اسرائیل سے تعلقات معمول پر لآنے کا یہ عمل درحقیقت ان کا ذاتی خود غرضانہ اقدام ہے، جس کا انجام بالآخر ان کی حکومت کے اختتام پر ہوگا۔ مسئلہ فلسطین عربی اور اسلامی نوعیت کا ہے، اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ سعودی عرب کی رائے عامہ اس معاملے پر متفق ہو جائے۔ دوسری طرف بن سلمان کے سیاسی مخالفین بھی عوام کو اس سمجھوتے کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ بن سلمان کے خلاف زمین ہموار ہوسکے۔
امریکہ میں ایک طرف سکیورٹی معاہدے کے اختتام کے حوالے سے سعودی عرب کی شرط کو قبول کرنے کے خطرات کے بارے میں بحث و مباحثہ جاری ہے اور دوسری طرف صہیونی کابینہ نے بھی یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ سعودی عرب کو معمولی رعایت دینے پر بھی آمادہ نہیں ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے، تل ابیب خطے کے اقتصادی اور سیاسی نظام میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ دوسرے ممالک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا راستہ بھی کھل سکے۔ نیتن یاہو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریاض کو روایتی قدامت پسند ممالک میں ایک اہمٰ مقام حاصل ہے اور وہ سعودی عرب کے ساتھ سیاسی تعلقات شروع کرکے علاقائی میکانزم میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سعودی ولی عہد تمام علاقائی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اپنی اقتصادی ترقی کی راہ میں پہلے قدم کے لیے ریاض کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ سکیورٹی اور صفر تناؤ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یمن امن مذاکرات بھی اسی لئے ہو رہے ہیں۔ بہرحال خطے میں صیہونی حکومت کی فوجی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے عزم اور سعودی عرب میں یورینیم کی افزودگی کے لیے صیہونی حکام کی مخالفت، امریکی صدارتی انتخابات کا قریب آنا اور ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات چند ایسے مسائل ہیں، جس نے ریاض کی قیادت کو ابراہم معاہدے میں شامل ہونے سے روک رکھا ہے۔ سیاسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابراہیم معاہدے میں سعودی عرب کا الحاق فوری ممکن نہیں ہے، لیکن اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن کا منصوبہ بہرحال جاری رہے گا، البتہ پالیسیوں میں کوئی تزویراتی تبدیلی نہیں آئے گی۔
سعودی اور صیہونی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کا فوری نتیجہ کیا برآمد ہوگا، اس بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے، لیکن جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے صیہونی حکومت کو تسلیم کرنے سے دوسرے عرب ممالک کو اس طرف جانے میں آسانی ہوجائیگی، لیکن عالمی رائے عامہ بالخصوص الجزائر، قطر، کویت اور عمان جیسی حکومتیں اس منصوبے پر فوری عمل نہیں کریں گی۔ اسرائیل کے اندر انتہاء پسند بھی اس منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہ دو ریاستی منصوبے کی بجائے تمام فلسطینیوں کو نکال باہر کرکے پورے مغربی کنارے کو مقبوضہ علاقوں میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لہذا مسائل کا یہ مجموعہ تعلقات کو معمول پر لانے میں خلل ڈالنے کا باعث بن سکتا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔