(تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم)
گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس جاری تھا، اس اجلاس کی جنرل اسمبلی سے مختلف ممالک کے سربراہان مملکت نے خطاب کیا۔ پاکستان میں قائم نگران حکومت کے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر پر گفتگو کی اور ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت بھی کی۔ انوار الحق کاکڑ نے اپنی گفتگو میں اسلامو فوبیا کے معاملہ کو بھی اجاگر کیا اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف جاری منفی پراپیگنڈا کی مذمت کی۔ نگران وزیراعظم نے مسئلہ فلسطین پر بھی خصوصی توجہ دیتے ہوئے فلسطین میں غاصب صیہونی حکومت کے مظالم کی مذمت کی، لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایک ایسے مردہ معاہدے کو زندہ کرنے کی کوشش کی، جس کی پاسداری خود غاصب صیہونی حکومت بھی نہیں کرتی۔
جی ہاں کاکڑ صاحب نے اوسلو معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی تشریح کچھ اس طرح کی کہ مسئلہ فلسطین کے حل کو دو ریاستی حل کی طرف بیان کیا۔ حالانکہ اسرائیل کی غاصب حکومت نہ تو دو ریاستی حل کی تلاش میں ہے اور نہ ہی اسرائیل کی سرپرست دہشتگرد حکومت امریکہ مسئلہ فلسطین کے عنوان سے دو ریاستی حل کو ترجیح دیتی ہے۔ اسی طرح فلسطینیوں کی طرف سے بھی کبھی دو ریاستی حل کو فلسطین کے مسئلہ کا حل قرار نہیں دیا گیا۔ صرف پی ایل او نے اس معاہدے پر درستخط کئے اور اس معاہدے میں بھی دو ریاستی حل کی بات نہیں کی گئی بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ غاصب صیہونی حکومت کہ جس نے فلسطین کے متعدد علاقوں کو مقبوضہ کر لیا ہے، اسے فی الفور 1967ء کی سرحدوں تک واپس جانا چاہیئے اور مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ دینا چاہیئے، تاکہ آئندہ مزید پیشرفت کا راستہ بنایا جاسکے، لیکن غاصب صیہونی حکومت نے نہ تو اس معاہدے پر عمل کیا بلکہ اس کے برعکس صیہونی آبادکاری کا عمل تیز کر دیا اور تاحال صیہونی آبادکاری فلسطینی سرزمینوں پر جاری ہے۔
یہاں صرف نگران وزیراعظم پاکستان سے اتنا ہی کہنا ہے کہ پاکستان کے اساسی اصولوں میں اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے۔ یہی موقف قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا، جو آج تک موجود ہے۔ یہی موقف حقیقت میں نظریہ پاکستان کی اساس بھی ہے۔ اگرچہ کاکڑ صاحب نے عالمی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، لیکن کمزور موقف اپنانے کی وجہ سے ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ اہم ترین موضوعات کے باوجود کاکڑ صاحب کی تقریر کو وہ اہمیت حاصل نہ ہوسکی، جو ہونا چاہیئے تھی۔ دوسری طرف غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ان تقاریر کے دوران اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کی سائیڈ لائن میں اسرائیل اور سعودی عرب کے عہدیداروں کے مابین ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے اور سعودی عرب اسرائیل کے تسلیم کرنے کے فیصلہ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کے وزیر خارجہ ایلی کوہل نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ چھ سے سات اور عرب ممالک اور کچھ غیر عرب ممالک بھی اسرائیل کوتسلیم کرنے کا ایک ساتھ اعلان کرنے والے ہیں۔
ابھی اسرائیلی وزیر خارجہ کا بیان ذرائع ابلاغ سے اوجھل نہ ہوا تھا کہ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کا بیان سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان کے قومی مفاد اور فلسطینی عوام کے مفاد کو مدنظر رکھ کر کرے گا۔ جلیل عباس کا یہ بیان حیرت انگیز اور مبہم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی کمزور اور شکوک و شبہات سے بھرپور تھا۔ کیونکہ ماضی میں ہمیشہ جب بھی پاکستان کے بارے میں اسرائیل کے تعلقات کی بات سامنے آئی تو ہمیشہ حکومتی سطح پر واضح موقف اپناتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ درحقیقت یہ وہی موقف ہے، جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا ہے۔ لیکن اس مرتبہ جلیل عباس نے رٹا رٹایا بیان کہ قومی مفاد کے تحت فیصلہ کیا جائے گا، واقعی یا تو نادانی تھی یا پھر اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اسرائیلی وزیر خارجہ کا دعویٰ درست ہے کہ انہوں نے عرب ممالک کے علاوہ غیر عرب ممالک کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کی ہے۔
نگران وزیر خارجہ کو اس بیان کے بعد پاکستان میں سرگرم عمل فلسطین فاؤنڈیشن کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ راقم نے بطور سیکرٹری جنرل حکومت پاکستان اور نگران وزیر خارجہ سے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت کو بانی پاکستان کا نظریہ معلوم نہیں ہے؟ کیا حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے اجلاس کی سائیڈ لائن پر کسی اسرائیلی عہدیدار سے ملاقات کر لی ہے اور اب اسے خفیہ رکھا جا رہا ہے؟ اس موضوع پر پاکستان کے سیاستدانوں اور تجزیہ گاروں نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ حامد میر، عاصمہ شیرازی، علی محمد خان، لیاقت بلوچ، علامہ ناصر عباس جعفری، صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر سمیت امیر عباس اور دیگر اہم شخصیات نے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے موقف کی تائید کی اور وزیر خارجہ کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسی نظریہ پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات سے انحراف قرار دیا۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا اور عوام نے اپنی رائے واضح کر دی کہ پاکستان کے عوام کسی بھی حکومت کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ مسئلہ فلسطین پر بانی پاکستان کی پالیسی سے انحراف کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کیا چند مالی مفادات کی خاطر جو کہ دائمی نہیں ہیں اور امریکہ کی جانب سے دھوکہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے تو کیا ایسے عارضی مفادات کے لئے نگران حکومت نے قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسی اور نظریہ سے انحراف کا فیصلہ کر لیا ہے۔؟ کیا واقعی نگران حکومت کے پاس یہ اختیارات موجود ہیں کہ وہ مسئلہ فلسطین پر ایک مبہم اور مشکوک پالیسی اپنا کر پاکستان کے پچیس کروڑ عوام میں اضطراب پیدا کرے؟ بہرحال حکومت کو یہ بات جان لینی چاہیئے کہ اگر پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ ہے تو پھر فلسطین کے مسئلہ پر کمزور اور مشکوک موقف کبھی بھی مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد گار ثابت نہیں ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ امریکہ کی محبت میں پاکستان کو عالم اسلام میں بھی سبکی اٹھانا پڑے اور کشمیری مظلوموں کے سامنے بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔