سائفر کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست ضمانت کی اِن کیمرا سماعت کے خلاف استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت کھلی عدالت میں کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کی اِن کیمرا سماعت کی درخواست نمٹادی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حساس معلومات کی نشاندہی پر سماعت کو اِن کیمرا کیا جا سکتا ہے، سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر سماعت کھلی عدالت میں ہوگی، حساس معلومات یا دستاویزات ریکارڈ پر آنے پر سماعت ان کیمرا کردی جائے گی۔ واضح رہے کہ دو روز قبل سائفر کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست ضمانت کی اِن کیمرا سماعت کرنے کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستِ ضمانت پر اِن کیمرا سماعت کے لیے ایف آئی اے کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی تھی، اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور اور وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے ان کیمرا سماعت کرنے کی درخواست پر دلائل دیے تھے جب کہ وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سلمان صفدر نے اِن کیمرا سماعت کی درخواست کے خلاف دلائل دیے تھے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ میں نے 9 برس میں ان کیمرا کبھی سماعت کی نہیں ہے، ایک آدھ بار مسنگ پرسن کیس میں کی ہوگی، بعد ازاں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ یاد رہے کہ اب سے کچھ دیر قبل ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت خصوصی عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت، معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہونے کے باعث بغیر کارروائی 9 اکتوبر تک ملتوی کردی تھی جب کہ عمران خان کے وکیل نے سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا تھا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت کی تھی جس کے دوران انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے ٹرائل آگے نہ بڑھانے کی درخواست دائر کی تھی اور مؤقف اپنایا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے۔ انہوں نے استدعا کی تھی کہ کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک ملتوی کیا جائے جس پر عدالت نے سماعت بغیر کارروائی 9 اکتوبر تک ملتوی کردی تھی۔ گزشتہ روز وزارت قانون و انصاف نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے جیل میں ٹرائل کا نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا جب کہ پی ٹی آئی نے نوٹی فکیشن کو مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت اوپن کورٹ میں کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور چیف جسٹس آف پاکستان پر زور دیا کہ وہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو منصفانہ ٹرائل کے بنیادی آئینی حق سے محروم کر کے عدالت کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی کوششوں کا نوٹس لیں۔ یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔
پسِ منظر
یاد رہے کہ 14 ستمبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں عمران خان اور پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری مسترد جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی تھی۔ یہ کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے، جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔ پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں ریمانڈ پر ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔ سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔ مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا‘۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔