امیرالمؤمنین (علیہ السلام) وہ ہستی ہیں جو پیغمبر رحمت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو کما ہو حقہ پہچانتے ہیں؛ اور آنحضرت نے خود فرمایا ہے کہ "اے علی! اللہ تعالیٰ کو کسی نہیں پہچانا، میرے اور آپ کے سوا؛ اور مجھے کسی نے نہیں پہچانا، اللہ اور آپ کے سوا، اور آپ کو کسی نہیں پہچانا اللہ اور آپ کے سوا”۔ اور نہج البلاغہ میں اس آنحضرت کی جو خصوصیات بیان کی ہیں ان سے اس حدیث نبوی کی تصدیق ہوتی ہے؛ اور اس تحریر میں ان میں سے بعض خصوصیات امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے زبانی، نقل کی گئی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: ” "يَا عَلِيُّ مَا عَرَفَ اَللَّهَ إِلاَّ أَنَا وَأَنْتَ، وَمَا عَرَفَنِي إِلاَّ اَللَّهُ وَ أَنْتَ، وَمَا عَرَفَكَ إِلاَّ اَللَّهُ وَأَنَا؛ اے علی! اللہ کی معرفت (پہچان) کا حق کسی نے ادا نہیں کیا، میرے اور آپ کے سوا؛ اور میری معرفت و پہچان کا حق کسی نے ادا نہیں کیا اللہ اور آپ کے سوا، اور آپ کی معرفت و پہچان کا حق کسی نے ادا نہیں کیا، اللہ اور میرے سوا”۔ (محمد تقي مجلسي، روضةالمتقين، ج13، ص273) نہج البلاغہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شخصیت اور کردار کے بارے میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خصوصیات: عصر جاہلیت اور نعمت بعثت اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو ایسے حال میں مبعوث فرمایا جب لوگوں پر ہویٰ و ہوس کا غلبہ تھا، وہ فتنوں میں بھٹک رہے تھے، وہ گمراہی کی حیرت میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، غرور و تکبر نے انہیں بے انتہا لغزشوں میں دھکیل رکھا تھا، اور جاہلیت کی نادانیوں نے انہیں پست اور ذلیل کر دیا تھا اور وہ زندگی کے معاملات میں حیران و پریشان تھے، جہل و نادانی کی بلا انہیں دامنگیر ہو چکی تھی؛ چنانچہ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے نصیحت و خیرخواہی میں انتہائی کوشش کی، اور اپنے راستے پر جمے رہے اور لوگوں کو حکمت و دانائی اور بہترین موعظے اور نصیحت کی طرف بلایا۔ (1)
بعثت نبوی کے ثمرات
بے شک خدائے سبحان نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو مبعوث فرمایا، ایسے دور میں جب عربوں نے کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی، اور وہ وحی اور نبوت کے دعویدار نہیں تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنے اطاعت گزاروں کے ساتھ مل کر مخالفین کے ساتھ جنگ کی، جبکہ انہیں منزل نجات کی طرف لے جا رہے تھے، اور ان کی موت آنے سے پہلے، انہیں فلاح و رَستگاری تک پہنچانے کی سعی کر رہے تھے۔ جب کوئی تھکا ماندہ ہو کر رک جاتا تھا اور تھک ہار کر ٹہر جاتا تھا تو آپ اس کے ساتھ کھڑے ہوکر اس کے ساتھ رواداری برتتے تھے اور فلاح و رستگاری کی منزل مقصود تک پہنچا دیتے تھے؛ یہ اور بات ہے کہ جو تباہ حال اور گمراہی پر بضد لوگ تھے، ان میں ذرہ برابر بھلائی ہی نہیں تھی۔ یہاں تک کہ آپ نے انہیں نجات کی منزل دکھا دی، اور انہیں ان کے مرتبے پر پہنچا دیا، چنانچہ ان کی چکی گھومنے لگی اور ان کے نیزے کا خم (ٹیڑھا پن) جاتا رہا۔ خدا کی قسم میں بھی [نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لشکر میں] ان [باطل] کو ہنکانے والوں میں تھا۔ یہاں تک کہ باطل کے علمبردار شکست کھا کر پوری طرح پسپا ہو گئے، اور اطاعت کے بندھنوں میں جکڑ دیئے گئے [اور اسلامی قیادت کے اطاعت گزار ہو گئے]۔ اس راستے پر میں نہ میں عاجز ہؤا نہ بزدلی دکھائی، نہ کسی قسم کی خیانت کی اور نہ مجھ میں سستی اور کمزوری آئی۔ خدا کی قسم! میں (اب بھی) باطل کا سینہ چیر کر حق کو اس کے پہلے سے نکال لیتا ہوں۔ (2)
اے لوگو! تم بعثت نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی برکت اور اللہ کے فضل و کرم سے ایسے مرتبے تک پہنچے ہو کہ تمہاری کنیزوں کو بھی محترم سمجھا جانے لگا اور تمہارے پڑوسیوں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا جانے لگا، وہ لوگ بھی تمہاری تعظیم کرنے لگے جن پر نہ تو تم کوئی برتری اور فضیلت رکھتے ہو، نہ ہی ان پر تمہارا کوئی احسان ہے۔ ایسے لوگ بھی تم سے خوفزدہ رہنے لگے جنہیں نہ تو حکومت کی طرف سے کسی حملے کا اندیشہ ہے اور نہ ہی تم ان پر حاکمیت اور تسلط رکھتے ہو۔ (3)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خصوصیات
"اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور گواہی دیتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اس کے عبد (بندے) اور رسول ہیں۔ اللہ نے انہیں بھیجا تا کہ اس کے فرمان کو واضح کریں، اور اس کا ذکر زبان پر لائیں۔ آپ نے امانتداری کے ساتھ اسے پہنچایا اور راہ راست پر استوار رہتے ہوئے رخصت ہوئے اور ہم میں حق کا وہ پرچم بطور یادگار چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھے گا وہ (دین سے) نکل جائے گا اور جو پیچھے رہ جائے گا وہ مٹ جائے گا اور جو اس سے چمٹا رہا رہے گا وہ حق کے ساتھ رہے گا۔
اس پرچم کے راہنما وہ تھے جو جو بات کہنے میں غور و تامل سے کرتے تھے، جلدبازی نہیں کرتے تھے اور (پوری طرح غور کرنے کے لئے) تاخیر کرکے اقدام کرتے تھے اور جب کسی امر کو لے کر کھڑے تھے تو بہت تیزگام اور ہوشیار ہوکر آگے بڑھتے تھے، تو جب تم نے ان کے سامنے گردنیں خم کردیں اور ان کی عظمت و جلالت کا اقرار کیا تو ان کا وقت وصال آ گیا اور اللہ نے انہیں تمہارے بیچ سے اٹھا لیا۔ اور پھر جب تک اللہ چاہے گا تم (انتظار میں) جیتے رہو گے، یہاں تک کہ اللہ اس شخص کو ظاہر کر دے جو تمہیں ایک جگہ متحد کر دے اور تمہاری شیرازہ بندی کرے۔ اے لوگو جو کچھ ہونے [اور آنے] والا نہیں ہے اس کی لالچ نہ کرنا، جو چلا گیا اس سے ناامید مت ہونا، اور بہت ممکن ہے کہ برگشتہ صورت حال کا ایک قدم اکھڑ گیا ہو اور دوسرا قدم جما ہؤا ہو، اور پھر کوئی ایسی صورت ہے کہ دونوں قدم جم جائیں”۔ (4)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی برکت سے رنجشوں کا خاتمہ
"اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا مستقر (قرارگاہ یا ٹھکانہ) بہترین مستقر اور آپ کی نشوونما کا مقام بہترین مقام یعنی کرامتوں کا معدن اور سلامتی کا مرکز، نیک لوگوں کے دل آپ کی طرف جھکا دیئے گئے ہیں اور نگاہوں کا رخ آپ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اللہ نے آپ کے ذریعے کینوں اور دشمنیوں کو دبا دیا ہے اور عداوتوں کے شعلوں کو بجھا دیا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں الفت و محبت پیدا کی اور جو (کفر کی راہ میں) اکٹھے ہوئے تھے، انہیں منتشر کر دیا۔ پسے ہوئے خوار انسانوں کو عزت و سربلندی عطا کی اور عزت پر اکڑے والے کافروں کو ذلیل کر دیا، آپ کا کلام حقائق اور شرائع کی تشریح تھی اور آپ کی خاموشی بولتی زبان تھی”۔ (5)
اہل بیت نبی (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کی فرمانبرداری کی ضرورت
"وہ جس سمت میں قدم اٹھائیں، تو ان ہی کے نقش قدم پر چلو، وہ کبھی بھی تمہیں راہ ہدایت سے خارج نہیں کریں گے، اور پستی اور ہلاکت میں نہیں پلٹائیں گے؛ وہ ٹہر جائیں تو تم ٹہر جاؤ، اور وہ اٹھ کھڑے ہوں تو اٹھ کھڑے ہو جاؤ، اور کبھی بھی ان سے آگے نہ نکل جانا کہ اس صورت میں گمراہ ہو جاؤگے، اور ان سے پیچھے بھی نہ رہ جانا، کہ اس صورت میں تم ہلاک ہو جاؤگے”۔ (6)جاری ہے۔۔۔بشکریہ ابنا نیوز