Breaking News
Home / کالمز / خداخدا کرکے افغان بخار اترا

خداخدا کرکے افغان بخار اترا

(تحریر : ایاز امیر)

یہ بھی طالبان نے اپنی ہٹ دھرمی دکھاکرہم پر مہربانی کی اور ہماری آنکھوں سے پردہ ہٹا اور اُس سے ہمیں اصلیت دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی‘ نہیں تو ہم اُسی فضول کے بخار میں مزید مبتلا رہتے۔خودسے ہماری آنکھیں نہ کھلتیں لیکن طالبان نے ایسے حالات پیدا کئے کہ ہم اپنی نادانی کی کیفیت سے نکلنے پر مجبورہوگئے۔1978ء سے لے کر 2023ء تک ‘ کتنے سال بنتے ہیں؟ پورے پینتالیس سال ہم اس افغان بخار میں مبتلا رہے ہیں اور اب جاکر جان چھٹنے کی شروعات ہو رہی ہیں‘ حالانکہ اب بھی شک گزرتا ہے کہ اس نئے عزم پر ہم قائم رہ سکتے ہیں یا نہیں۔
یہ جو ہماری نئی پالیسی ہے کہ غیرملکی تارکین وطن31 اکتوبر تک یہاں سے چلے جائیں‘ اس کی زد میں زیادہ تر تو افغان باشندے ہی آئیں گے کیونکہ زیادہ تعداد انہی کی ہے اور ہمارے لیے دردِسر بھی یہی بنے ہوئے ہیں۔ ان کو ہماری مہمان نوازی راس نہ آئی۔ تمام دروازے ان کیلئے کھول دیے گئے تھے اور جہاں کچھ افغان باشندے کیمپوں میں تھے بہت سارے ایسے تھے جو پورے ملک میں پھیل گئے ۔ بہتوں نے یہاں حق حلال کی روزی کمائی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے افغان باشندے غیرقانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث رہے۔افغان طالبان میں کچھ سمجھ ہوتی توپاکستان کے ساتھ معاملات سلجھا کے رکھتے لیکن امریکی وہاں سے کیا نکلے ‘طالبان حکام ایک عجیب گھمنڈ کا شکار ہوگئے کہ ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں۔پاکستان نے بارہا کہا کہ تحریک طالبان پاکستان‘ جو اعلانیہ طور پر ریاستِ پاکستان سے برسرِ پیکار ہے‘ کو کچھ لگام ڈالیں اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔افغان حکام زبانی جمع خرچ تو کرتے رہے لیکن ذرہ برابر بھی ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو یا تو روک نہ سکے یا اُنہوں نے روکنا نہ چاہااور ٹی ٹی پی نے اپنے طور پر کیا رکنا تھا ‘ پاکستان کے خلاف اُن کے دہشت گردی کے حملے بڑھتے ہی گئے۔

اور جو حالیہ حملے سرحد کے قریب چترال میں ہماری چوکیوں پر ہوئے یہ تو ایک باقاعدہ فوجی آپریشن کا گمان دیتے تھے۔ طورخم کے نزدیک بھی طالبان حکام نے ضرورت سے زیادہ ہٹ دھرمی دکھائی‘ ایک نئی چیک پوسٹ بنانے چلے تھے جس سے دونوں اطراف فائرنگ ہوئی اور کچھ جانی نقصان بھی ہوا۔ مجبوراً پاکستان کو طورخم کراسنگ بندکرنا پڑی اور یہ تقریباً ایک ہفتہ بند رہی۔ مال سے لدے سینکڑوں ٹرک سرحد کے دونوں اطراف ہفتہ بھر کھڑے رہے۔مذاکرات ہوئے اور پھر جاکر بارڈر کراسنگ کھلی۔ اُس کے بعد پاکستان نے غیرملکی تارکینِ وطن کے بارے میں فیصلہ کیا جس سے طالبان حکام کو خاصی چبھن ہو رہی ہے۔افغان مہاجرین کے خلاف اقدامات کا پہلے بھی اعلان ہوتا رہا ہے لیکن دلجمعی سے ان اقدامات کو کبھی پورا نہ کیا گیا۔عام پاکستانی دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اس بار حکومت اپنے فیصلے پر قائم رہے اورغیر ضروری لچک کا مظاہرہ نہ کرے۔

یہاں لاتوں کے بھوت والی بات ہے‘ افغانستان کے ہمارے برادرِعزیز اور کوئی زبان سمجھتے نہیں۔یہ درست ہے کہ روسیوں کو جانا پڑا پھر امریکیوں کو بھی جانا پڑا ‘ یہ تو باہر کے لوگ تھے جنہوں نے افغانستان میں قدم رکھا جبکہ افغان تاریخ کا انہیں کوئی ادراک ہوتا توایسا نہ کرتے۔لیکن ہم تو یہیں کے رہنے والے ہیں ‘ افغان نہ سہی افغانستان کے ہمسایہ تو ہیں اور صدیوں سے ہمسایہ رہے ہیں۔وہ ہمیں جانتے ہیں ہمیں اُن سے واقفیت ہے۔ایک دوسرے کو خواہ مخواہ کی اکڑ تو نہیں دکھانی چاہئے۔افغانوں نے وہیں رہنا ہے اور یہ دھرتی جیسی بھی ہے جیسے بھی اس کے مسائل ہیں ہم نے بھی یہیں رہنا ہے۔ باہمی میل جول سے رہیں تو زیادہ بہتر ہے۔ افغانستان کا کوئی سمندری راستہ نہیں‘ جو کچھ وہ منگواتے ہیں زیادہ تر پاکستانی راستوں سے ہی وہاں پہنچتا ہے۔آپس کی دشمنی سے نہ افغانوں کو کچھ حاصل ہوگا نہ ہمیں۔

جنرل ضیاالحق کو گئے ایک مدت ہو گئی ہے ‘ اب اُنہیں کوسنا اچھا نہیں لگتا لیکن اس افغان بخار کی ابتدا جنرل ضیا الحق سے شروع ہوتی ہے۔ افغانستان کی سرحد جتنی ہم سے لگتی ہے تقریباً اتنی ہی ایران کے ساتھ ہے۔ روسی فوج جب افغانستان آئی تھی توافغان پناہ گزین ایران بھی گئے تھے لیکن ایرانیوں نے اُنہیں وہ کھلی چھٹی نہیں دی جو اپنا فریضہ سمجھ کرہم نے دی۔افغان یہاں آئے تو ہم نے اُنہیں کھلا چھوڑدیا۔ افغان نمبر پلیٹوں کے ساتھ اُن کے ٹرک پورے ملک میں چلتے تھے۔ہم پاکستانیوں کو تو پتا ہی نہیں تھا کلاشنکوف نام کی بندوق کیا ہوتی ہے۔ یہاں چرس و افیون چلتی تھی‘ ہیروئن کا اتنا چرچا نہیں تھا۔ افغان مہربانیوں سے ہم کلاشنکوف اور ہیروئن سے آشنا ہوئے اور ایسے ہوئے کہ آج مہلک ہتھیار اورمنشیات ہمارے وجود کا حصہ بن چکے ہیں۔لیکن اس سے بڑھ کر افغانستان میں جو جنگ شروع ہوئی اُسے ہم نے اپنی جنگ سمجھ لیا۔ امریکیوں کو تو ایک موقع چاہئے تھا روسیوں کو ہزیمت پہنچانے کا۔ وہ افغانستان کی صورتحال کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے لگے اور جنرل ضیا الحق تو ویسے ہی تیار بیٹھے تھے کہ اُنہیں کوئی استعمال کرے۔روسیوں سے تو امریکیوں نے حساب برابر کرنا تھا یا ویتنام کا بدلہ لینا تھا‘ ہماری روس سے دشمنی کون سی تھی؟ لیکن ایک نام نہاد جہاد کو ہم نے اپنے گلے لگا لیا‘ امریکی ہتھیار آئے تو ہمارے ذریعے ہی افغان جنگجو تنظیموں کو وہ پہنچتے تھے۔ پیسے بھی آنے لگے۔ ڈالروں کی بھرمار ہوئی اور ہمارے سعودی برادروں نے اعلان فرمایا کہ ہر ڈالر کے برابروہ ریال دیں گے۔ جنرل ضیا الحق اور اُن کے رفقا سمجھ بیٹھے کہ وہ بڑے سیانے ہیں ‘ پیسے اور اسلحہ آیا تو اُن کیلئے بھی آسانیاں پیدا ہوئیں لیکن اُس نام نہاد جہاد کی وجہ سے پاکستان کی ہیئت تبدیل ہوکررہ گئی۔ ملک میں لاقانونیت اوردہشت گردی کا اضافہ ہوا‘ فرقہ واریت بڑھ گئی اورمنشیات کا استعمال اِس معاشرے میں عام ہوگیا۔ افغانستان کے مسائل ہمارے مسائل بن گئے۔ روسی انخلا کے بعد امریکہ نے افغانستان سے اپنے ہاتھ دھولیے لیکن ہم افغانستان کے مسائل میں پھنسے رہے۔

روسی انخلا کے بعد افغان جنگجو تنظیمیں آپس میں لڑنے لگیں‘ افغانستان میں ایسی شورش پیدا ہوئی جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس شورش کے ردِعمل میں قندھار اور گردونواح کے علاقے میں طالبان تنظیم نے جنم لیا اورہمارے کرتا دھرتا‘کیونکہ ایسی چیزوں سے دور نہیں رہ سکتے‘ اُنہوں نے طالبان تحریک کی خاصی مدد کی۔ ہمارے کرتے دھرتوں پر ہمیشہ یہ بھوت سوار رہا کہ افغانستان میں ٹانگ اڑا کر ہم اپنا اثر بڑھا رہے ہیں اور ہندوستان کو پیر جمانے کی کوئی جگہ نہیں دے رہے۔سرے سے یہ سوچ ہی غلط تھی۔ افغانوں کو جب تک ہماری ضرورت تھی‘ ہماری طرف دیکھا لیکن قومیں خواہ مخواہ کسی کے زیرِ اثر نہیں آجاتیں اور یہ تو ماننا پڑے گا کہ افغان آزاد منش قسم کے لوگ ہیں۔اُنہوں نے کسی کا بھی اثر قبول نہیں کیا‘ ہمارا کیا کرنا تھا۔ لیکن ہمارے اکابرینِ ملت سے کون پوچھے ؟ وہ یہی سمجھتے رہے کہ افغانستان میں وہ سٹریٹیجک گہرائی حاصل کررہے ہیں۔ آج ہمیں اُس سٹریٹیجک گہرائی کی کچھ نہ کچھ سمجھ آ رہی ہے لیکن یہ سبق سمجھنے میں پینتالیس سال لگے ہیں۔ بہرحال یہی کہیں گے ‘ دیرآیددرست آید۔ بین الاقومی رشتوں میں دوستیاں نہیں ہوتیں باہمی مفاد ہوتا ہے۔ ہمارا اور افغانستان کا باہمی مفاد اس میں ہے کہ ہمارے نارمل تعلقات ہوں۔ تجارت ہو‘ آنا جانا ہو‘ جہاں ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کرسکیں‘ کریں۔برادرانہ تعلقات محض ایک اصطلاح ہے‘ اصل میں اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ایک زمانے میں پاکستانی سیرسپاٹے کیلئے کابل جایا کرتے تھے۔ آج کل وہاں سیرسپاٹے کیلئے کس نے جانا ہے؟وہاں طالبان بیٹھے ہیں اور ماشاء اللہ پاکستان میں بھی کافی طالبانائزیشن ہوچکی ہے۔بس ٹھیک تعلقات ہونے چاہئیں۔بشکریہ دنیا نیوز

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے