(افضال ریحان)
پاکستان اس وقت قیادت کے حوالے سے جس نوع کے سیاسی، معاشی، مذہبی، عدالتی یا سماجی بحران کا شکار ہے ، ایسے میں محترم قاضی فائز عیسیٰ جیسی باصلاحیت و دبنگ شخصیت کا قاضی القضاۃ کی ذمہ داری پر فائز ہونا تازہ ہوا کا خوشگوار جھونکا ہی قرار پائے گا۔ ہم ہمیشہ سے عسکری طاقتوں کا رونا روتے چلے آئے کہ وہ ناتواں جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ سے کھلواڑ کرتی رہی ہیں لیکن اگر انصاف اور سچائی کے ساتھ حقائق کا تجزیہ کیاجائے تو پاکستان میں سپریم جوڈیشری کا رول چار ہاتھ آگے ہی دکھائی دےگا۔ ابھی بندیالی کورٹ ٹسوے بہاتی ہوئی رخصت ہوئی ہے ،حیرانی ہوتی ہے ایسی ذہنیت کو دیکھ کر۔ بندہ پوچھے یہ کونسی ججی اور کون سا انصاف ہے؟ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ ایسے بڑے مناصب پر براجمان کیسے ہوجاتے ہیں جنہیں قانون کی مبادیات کا بھی علم نہیں ،جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ انسانی و عوامی اُمنگوں کے نمائندہ و ترجمان ادارے پارلیمنٹ کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ ورنہ یہ نہ کہا جاتا کہ پارلیمنٹ کون ہوتی ہے ہمیں ہدایات دینے والی؟ یا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنانے والی؟
عالی جناب، پارلیمنٹ آپکی گرینڈ مدر ہے ، آئین جس کی آپ تخلیق ہیں اسی آئین کی وہ ماں ہے۔ یہ ساری تلخ نوائی ان ریمارکس کی وجہ سے ہے جن میں کہا گیا کہ یہ ایکٹ یا قانون تو اچھا ہے لیکن پارلیمنٹ یا مقننہ کون ہوتی ہے اسے بنانے والی؟ بندہ پوچھے کہ پارلیمنٹ یا مقننہ اگر قانون سازی نہیں کرے گی تو پھر کیا کرے گی؟ آپ ہی کے ایک کولیگ نے کتنا اچھا جواب دیا کہ ”سترہ غیر منتخب افراد رولز بنائیں پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر پچیس کروڑ انسانوں کا منتخب ادارہ پارلیمنٹ یہ رولز بنائے تو غلط ہے! ذرا بتایا جائے کیسے غلط ہے؟ کیا کسی فردِ واحد کو لامحدود و ناقابلِ احتساب اختیار دیاجاسکتا ہے؟سابق جج عطا بندیال کی ساس صاحبہ نے لیک ہونے والی وڈیو میں جس رابعہ خاتون سے گفتگو میں آرمی چیف پر سخت تنقید کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ مارشل لا کیوں نہیں لگا رہا ،اُسی رابعہ خاتون کے خاوند خواجہ طارق رحیم کا استدلال تھا کہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی ہے سپریم کورٹ کے معاملات میں کسی اور کی مداخلت ہوگی تو یہ سپریم کورٹ نہیں رہے گی جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فوری ریمارکس تھے کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس کا احتساب نہ ہو لیکن میں مارشل لادور کے فیصلوں کا پابند نہیں ہوں ۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا بجا طور پر یہ کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ ایشو یہ ہے کہ سسٹم کے اندر موجود ایسےجھول کیوں ہیں جن کی وجہ سے نااہل لوگ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز بن جاتے ہیں۔ اگر میرٹ کی بنیاد پر ان عہدوں پر تعیناتیاں ہونی چاہئیں تو پھر ٹھوس معیاربھی ہونا چاہیے پریکٹس میں ایسے شخص کا ایک مقام ہونا چاہیے، اصل مدعا تو یہی تھا کہ جو لوگ جوڈیشری سے پروموٹ ہوکر نہیں آتے لیکن اتنے باصلاحیت ہوتے ہیں کہ ان کی مطلوبہ معیار کی تکمیل پر یہاں تعیناتی کی جائے لیکن اگر صلاحیت کی بجائے دیگر عوامل تعلقات یا اپروچ نے بنیاد بننا ہےتو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ جو لوگ سول ججز سے اوپر اٹھ کر آتے ہیں میرٹ پر انہی کی پروموشن ادھر کیلئے بھی ہو جائے۔ ہماری جوڈیشری میں جوڈیشل ایکٹیوازم کے نام پر جتنی بھی بربادی ہوئی خوش آئند امر یہ ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اسی کا دھونا دھونے کیلئے کوشاں ہیں ،یہ پہلا موقع ہے کہ ایک چیف جج یہ کہتے سنائی دیئے کہ میں نے آئین و قانون کے تحفظ کا حلف اُٹھایا ہے
مارشل لا ادوار میں سپریم جوڈیشری نے جو غلط فیصلے کیے ہیں میں ایسے فیصلوں کا ہرگز پابند نہیں ہوں اور کھلے بندوں یہ مانتا ہوں کہ ہماری جوڈیشری نے بہت سے غلط فیصلے کیے ہیں۔ جسٹس قاضی اتنے باکردار جج ہیں جنہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی معطلی یا سٹے پر بروقت گرفت کی اور اس غیرقانونی عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا موقع ملتے ہی سب سے پہلے اس ایشو پر فل کورٹ تشکیل دیتے ہوئے واضح کیا کہ میں اس کے فیصلے سے قبل ہی رضاکارانہ طور پر 184 IIIکے سوموٹو اختیار پر اور بنچز کی تشکیل پر تنہا پرواز کی بجائے تین رُکنی کمیٹی کے فیصلوں کی پابندی کروں گا۔ ہمارے یہاں اصولوں کی بنیاد پر اپنے اختیارات سے یوں سرنڈر کرنے کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آگے بڑھتے ہوئے چیف جسٹس کو ججز کی تعیناتی اور پروموشن کے ایشوز کو ریگولیٹ کرنے کا جمہوری تقاضوں کی مطابقت میں اہتمام کرنا ہوگا اور یہ بھی کہ مس کنڈکٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل کا رول کس طرح زیادہ مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ دو مزید ججز کو لاتے ہوئے کس طرح ستاون ہزار کیسز کو نمٹایا جاسکتا ہے عوام کا جوڈیشری سے جس طرح اعتماد اُٹھ چکا ہے اس کی بحالی کیونکر ممکن بنائی جاسکتی ہے، آنے والے دنوں میں چیف جسٹس صاحب کو الیکشن اور طاقتوروں کے معاملات کےچیلنجز بھی درپیش ہونگے انہیں اس امر کا خیال بھی رکھنا ہوگا کہ اقلیتوں، خواتین اور کمزور طبقات کو تحفظ فراہم ہو، مملکت کے تمام شہری بلاتمیز مساوی حقوق رکھتے ہیں اس بنیادی انسانی یونیورسل اصول کو ہر سطح پر اپنایا اور منوایا جائے۔بشکریہ جیو نیوز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔