(محمد اکرم چوہدری)
پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔ ان کی واپسی کی خبریں اخبارات میں نمایاں ہیں۔ ٹیلیویژن چینلز پر بھی میاں نواز شریف کی واپسی چھائی ہوئی ہے۔ ایک ایسا ماحول بنا ہوا ہے کہ جیسے آنے والے چند ماہ میں پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ عام آدمی کی مشکلات کم ہو جائیں گی، زندگی آسان ہو جائے گی، مہنگائی کم ہو گی ، بجلی سستی ہو گی، قرضوں کا بوجھ کم ہو جائے گا، غربت میں کمی ہو گی، بے روزگاری ختم ہو گی، ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہو گی۔ سبز پاسپورٹ کی عزت میں بہتری آئے گی۔
پاکستان کے عالمی طاقتوں سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ ملک ترقی کرے گا، دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوں گی، ڈالر نیچے آئے گا، روپے کہ قدر و قیمت میں اضافہ ہو گا، باعزت روزگار کے مواقع بڑھیں گے، امیر غریب قانون کے سامنے سب برابر ہوں گے۔ کیونکہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے پہلے بھی ایسا ہی ماحول تھا۔ پاکستانیوں کو بتایا جا رہا تھا کہ ملک میں صرف ایک سیاسی جماعت کے سوا کوئی بھی ملک سے ہمدرد نہیں ہے، صرف ایک سیاسی جماعت ہی ملک کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے، صرف ایک جماعت ہی ملکی معیشت کو مضبوط کر سکتی ہے، مسائل حل کر سکتی ہے، روپے اور سبز پاسپورٹ کی قدر میں اضافہ کر سکتی ہے۔ صرف ایک سیاسی جماعت ہی پاکستان کو ترقی کی طرف لے جا سکتی ہے لیکن دو ہزار اٹھارہ کے بعد کیا ہوا یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ملکی قرضوں میں تاریخی اضافہ ہوا، مافیا مضبوط ہوا ، بڑی تعداد میں لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے ، ڈالر بے قابو اور روپے کی تاریخی بے قدری ہوئی، مہنگائی آسمان پر پہنچی، کرپٹ عناصر کی جڑیں مضبوط ہوئیں، برادر اسلامی ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہوئے ، ملک میں ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ آئی غرض کہ ہر لحاظ سے ملکی مسائل میں اضافہ ہوا۔ آج بھی جس دور سے ہم گذر رہے ہیں مشکلات مصائب اور مسائل سے بھرپور ہے اور ایک مرتبہ پھر ایسا منظر نامہ بن رہا ہے یا بنایا جا رہا ہے یا کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی ایک شخص کی واپسی سے ملکی مسائل حل ہو جائیں گے۔
قارئین کرام دل خون کے آنسو روتا ہے اس ملک کے کروڑوں لوگوں کو ہر مرتبہ سبز باغ دکھائے جاتے ہیں لیکن ہر مرتبہ چہرے بدل جاتے ہیں، کام وہی ہوتے ہیں۔ عام آدمی اس امید میں ہر روز جیتا مرتا ہے کہ کب سکوں کا سورج طلوع ہو گا، کب مشکلات کم ہوں گی، کب زندگی میں سکون آئے گا، اسی امید میں وہ وقفے وقفے سے کبھی ایک سیاسی جماعت کے پیچھے بھاگتے ہیں تو کبھی کسی اور سیاسی جماعت کے پیچھے بھاگتے ہیں اسی بھاگ دوڑ میں زندگی کی سانسیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن حکمران طبقے کی بے حسی ختم نہیں ہوتی۔ مجھے تکلیف ہوتی ہے کہ ہر آنے والا دن ملک میں وسائل سے محروم افراد کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہم کیوں صرف ایک ہی سیاسی جماعت کے محتاج ہیں، کیوں سیاسی قیادت متحد ہو کر ملکی مسائل حل کرنے کی طرف نہیں بڑھ سکتی، کیا ہماری "انا” ملک سے زیادہ اہم ہے، کیا سیاسی قیادت کے لیے اپنا کریڈٹ ملکی ترقی سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، کیا ملکی حالات "سولو فلائٹ” کی اجازت دیتے ہیں۔
اب میاں نواز شریف بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ واپس آ رہے ہیں۔ ان کی جماعت کی خوشیاں سنبھالے نہیں سنبھل رہیں لیکن کیا مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت کے پاس کوئی جواب ہے کہ میاں شہباز شریف کی وزارت عظمی کے دور میں جو کچھ ہوا ہے کیا وہ سب میرٹ پر تھا، کیا اس دور میں ملکی خدمت نہیں ہو سکتی تھی یا مسلم لیگ ن میاں شہباز شریف کے دور حکومت کو تسلیم نہیں کرتی، کیا مسلم لیگ ن میاں نواز شریف سے شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتی ہے، اگر میاں نواز شریف کسی بھی وجہ وزیر اعظم نہ ہوں تو کیا مسلم لیگ حکمرانی کے دعوے سے دستبردار ہو جائے گی۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے۔ گذشتہ پچیس تیس برسوں کے دوران مختلف سیاسی حکومتوں کے دور میں ملکی معیشت کمزور، ادارے تباہ اور قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں آج بھی یہی دعوے کرتی ہیں کہ ساری ترقی ان کی وجہ سے ہے۔ کاش کہ ہم شخصیت پرستی سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آئیں، ملکی مسائل، ضروریات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر سوچنا شروع کریں اور یہ سمجھ جائیں کہ ہمیں حقیقی معنوں میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں حکومت کر سکتی ہیں تو اکٹھے ہو کر وفاق میں کام کیوں نہیں کر سکتیں، کیوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے خاندان کے نام ہر سیاست کرتی ہیں کیوں متبادل قیادت کو سامنے نہیں لایا جاتا۔کاش میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، اے این پی والے اور دیگر جماعتوں کے بڑے اس حوالے سے ضرور سوچیں گے۔بشکریہ نوائے وقت
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔