پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف چار سال بعد وطن واپس پہنچ گئے۔ لاہور ایئرپورٹ پر سابق وزیراعظم شہباز شریف اور ن لیگی رہنماؤں نے نواز شریف کا استقبال کیا۔ کارکنان نے بھی اپنے قائد کا بھرپور استقبال کیا اور خوشی سے نہال ہوگئے۔ نواز شریف دبئی سے خصوصی طیارے کے ذریعے براستہ اسلام آباد لاہور پہنچے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر قانونی دستاویزات پر دستخط کرنے کے بعد سابق وزیراعظم خصوصی طیارے میں سوار ہوئے جو انہیں اسلام آباد سے لے کر لاہور پہنچا۔ نواز شریف نے ہیلی کاپٹر سے اترنے کے بعد نماز ادا کی ن لیگی قائد کا لاہور ایئرپورٹ پر سابق وزیراعظم اور انکے چھوٹے بھائی شہباز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے استقبال کیا۔
نواز شریف کے ساتھ اسحاق ڈار اور اعظم نذیر تارڑ بھی لاہور پہنچے۔ نواز شریف ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد بذریعہ ہیلی کاپٹر گریٹر اقبال پارک میں جلسہ گاہ کےلیے روانہ ہوئے۔ شاہی قلعےکے پاس دیوان خاص پر ہیلی پیڈ بنایا گیا، جہاں پر ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے کے بعد انہیں ہیلی پیڈ سے گاڑیوں کے قافلے میں مینار پاکستان جلسہ گاہ لے جایا گیا۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر مختصر قیام کیا جہاں ان کا امیگریشن ہوا۔ اسلام آباد ایئر پورٹ کے اسٹیٹ لاؤنج میں نواز شریف نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواست پر دستخط کیے۔ نواز شریف کی قانونی ٹیم نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے کی درخواست تیار کی تھی۔ ایئر پورٹ پر انہوں نے اپنے دیرینہ ساتھی اسحاق ڈار اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات بھی کی۔ ذرائع کے مطابق دستخط اور بائیو میٹرک کی کارروائی کے بعد نواز شریف لاہور جانے کےلیے طیارے میں سوار ہوئے۔
اس حوالے سے اسحاق ڈار نے بتایا ہے کہ بائیو میٹرک سرٹیفکیٹ اور قانونی دستاویزات پر نواز شریف کے دستخط لیے گئے اور تصدیقی کارروائی بھی مکمل کی گئی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں دائر کرنے کے معاملے پر نواز شریف کی لیگل ٹیم اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچی تھی۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر نواز شریف سے ملنے آنے والوں میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ سابق وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز، بیرسٹر ظفر اللّٰہ خان بھی شامل تھے۔ دبئی سے روانہ ہونے کے بعد نواز شریف کا طیارہ بندر عباس کے راستے ایران سے ہوتا ہوا پنجگور کے قریب پاکستان کی سرحد میں داخل ہوا تھا۔ فلائٹ ’امیدِ پاکستان‘ ایک گھنٹہ 22 منٹ کی تاخیر سے 10 بج کر 42 منٹ پر دبئی ایئر پورٹ سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ ایئر ٹریفک کنٹرول کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد میاں نواز شریف کے طیارے نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر لینڈنگ کی۔ نواز شریف 4 برس بعد وطن واپسی پر اسلام آباد ایئر پورٹ پر مسکراتے ہوئے طیارے سے باہر آئے۔ اسلام آباد سے دبئی کی پرواز کا دورانیہ 3 گھنٹے 5 منٹ ہے تاہم نواز شریف کا طیارہ وقت سے پہلے اسلام آباد پہنچا۔ طیارے میں نواز شریف سمیت 170 افراد پاکستان پہنچے ہیں۔
سابق ڈپٹی میئر اسلام آباد ذیشان نقوی نواز شریف کا استقبال کرنے کے لیے ایئر پورٹ پہنچے۔ ذیشان نقوی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی روانگی کے بعد بذریعہ موٹروے جلسہ گاہ روانہ ہوں گا۔ نواز شریف نے وطن روانگی سے قبل گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 4 سال کے بعد پاکستان جا رہا ہوں، آج میں اللّٰہ کے کرم سے سرخرو ہو کر پاکستان جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میری بیٹی کو بھی بلآخر کلین چٹ ملی اور وہ ملنی ہی تھی، مریم نواز کے پاس کوئی سرکاری آفس نہیں تھا اس کو تو ویسے ہی دھر لیا گیا تھا، میں نے پہلے بھی کہا تھا سب کچھ اللّٰہ پر چھوڑتا ہوں، ہم 9 مئی والے نہیں ہم 28 مئی والے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ بہت ہی اچھا ہوتا کہ آج 2017ء کے مقابلے میں حالات بہتر ہوتے، دکھ کی بات ہے کہ ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اضطراب والے حالات ہیں جو پریشان کن ہیں، حالات ہم نے بگاڑے بھی خود ہی ہیں ٹھیک بھی خود ہی کرنے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ جو ملک آئی ایم ایف کو بھی خدا حافظ کہہ چکا تھا وہ مسائل کا شکار ہے، وہ پاکستان جہاں لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی تھی اور علاج کی سہولت موجود تھی کیا وہ پاکستان آج نظر آتا ہے؟ نواز شریف نے کہا کہ 2017ء میں پاکستان میں روزگار مل رہا تھا اور علاج کی سہولت تھی، نوبت یہاں تک کیوں آئی، ہم اس قابل ہیں کہ ملک کے مسائل حل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے متعلق بہتر فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کرسکتا ہے، انتخابات سے متعلق میری ترجیح وہی ہے جو الیکشن کمیشن ٹھیک سمجھتا ہے۔ علاوہ ازیں روانگی سے پہلے نواز شریف کی اپنے بھائی شہباز شریف سے فون پر بات چیت ہوئی تھی جس میں شہباز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان آپ کے استقبال کے لیے تیار ہے۔