(سید مجاہد علی)
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے چار ایک کی اکثریت سے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمے چلانے کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی آرمی ایکٹ کی شق 2 ( 1 ) ڈی کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے اس شق کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک جرات مندانہ عدالتی فیصلہ ہے جو ملک میں شہریوں کے بنیادی حقوق کا ضامن بنے گا۔ اس طرح اداروں کو شہریوں کے معاملات میں اپنے دائرہ کار میں رہنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔
درخواست دہندگان نے سانحہ 9 مئی کے تحت گرفتار کیے گئے لوگوں کو فوج کے حوالے کرنے اور ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کے فیصلے کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔ ایک روز پہلے اٹارنی جنرل عثمان منصور نے ایک متفرق درخواست میں سپریم کورٹ کو مطلع کیا تھا کہ فوج کے زیر حراست 102 افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کا آغاز فوجی عدالتوں میں کیا جا چکا ہے۔ ان میں قصور وار پائے جانے والے لوگوں کو معمولی سزائیں دی جائیں گی جبکہ بے قصور لوگوں کو بری کر دیا جائے گا۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اس متفرق درخواست کے ذریعے سپریم کورٹ سے یہ رعایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات کے خلاف درخواستیں مسترد کردی جائیں کیوں کہ ایک تو وہاں ’معمولی‘ سزائیں دی جائیں گی، دوسرے فوجی عدالتوں میں کارروائی کے دوران بھی ملزمان کو دفاع کرنے کا مکمل قانونی استحقاق حاصل ہو گا۔ اور تمام فیصلے شواہد اور ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر ہوں گے۔
سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کے دوران حتمی دلائل دیتے ہوئے بھی اٹارنی جنرل عثمان منصور نے اسی بات پر زور دیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ایسے شہریوں کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے جن پر مسلح افواج کے ارکان کے کام میں مداخلت کرنے یا انہیں فرائض سے غفلت برتنے پر اکسانے کا الزام ہو۔ البتہ اٹارنی جنرل پانچ رکنی بنچ کے فاضل ججوں کے ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکے کہ اس کارروائی میں اس آئینی ضمانت کا کیا ہو گا جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے فراہم کی گئی ہے۔ موجودہ بنچ پانچ ججوں پر مشتمل تھا جس کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن کر رہے تھے جبکہ اس میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھیں۔ بنچ نے مختصر فیصلہ میں چار ایک کی اکثریت سے شہریوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کو غیر آئینی قرار دیا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ( 1 ) ڈی کو بھی خلاف آئین قرار دیا کیوں کہ اس میں شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ بنچ میں شامل 4 ججوں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل اکثریت نے اس شق کو آئین کے خلاف قرار دیا۔ جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس معاملہ پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے جس کی تفصیلات بعد میں جاری ہوں گی۔
سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی دفعہ 2 ( 1 ) ڈی کو آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ جبری لاپتہ کیے گئے افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ میں یہ شق سابق فوجی آمر ایوب خان کے دور میں شامل کی گئی تھی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے۔ ان کے خلاف پاکستان میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اس کے تحت عام شہریوں کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکتے ہیں۔ اب حکومت اس شق کی آڑ میں ان لوگوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دلوانا چاہتی تھی جن پر 9 مئی کے دن عسکری تنصیبات پر حملے کرنے اور فوجی افسروں کو اپنے فرائض کے خلاف اکسانے کا الزام تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق اب ان سب لوگوں کے ٹرائل ملک کے نظام انصاف کے تحت عام عدالتوں میں ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تناظر میں اب 9 مئی کے واقعات میں ملوث فوج کے حوالے کیے گئے افراد کو سویلین اتھارٹیز کی تحویل میں دیا جائے گا تاکہ وہ عام قانون کے تحت اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرسکیں۔
سانحہ 9 مئی کے بعد حکومت نے اس روز عسکری تنصیبات پر حملوں میں ملوث ایک سو سے زائد افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ تمام لوگ اس وقت بھی فوج کے قبضے میں ہیں اور ایسے بیشتر لوگوں کے لواحقین کو ان سے ملنے یا خیریت جاننے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، ممتاز قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی، جنید رزاق، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، حفیظ اللہ نیازی، لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام رحیم اور نعیم اللہ قریشی نے سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان درخواستوں پر غور کے لیے اپنی سربراہی میں 6 رکنی بنچ تشکیل دیا تھا تاہم یہ بنچ کوئی حکم جاری نہیں کر سکا تھا۔ اس معاملہ کی آخری سماعت 3 اگست کو ہوئی تھی۔ اس دوران حکومت کی طرف سے اس معاملہ پر غور کے لیے فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کی گئی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
ستمبر میں جسٹس بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد پرانا بنچ تحلیل ہو گیا تھا۔ تاہم ایک ہفتہ قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس مقدمہ کی سماعت کرنے والے باقی ماندہ پانچ ججوں پر مشتمل لارجر بنچ بنا کر سماعت جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ دو اڑھائی ماہ کے تعطل کے بعد آج اس مقدمہ کی سماعت ہوئی۔ اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ تاہم تھوڑی دیر بعد ہی مختصر حکم جاری کر دیا گیا۔ حکومت اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر سکتی ہے تاہم اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز متفرق درخواست میں فوجی عدالتوں کی کارروائی کے بارے میں ’معمولی سزائیں‘ دینے کا جو موقف اختیار کیا تھا، اس کی روشنی میں حکومت کے پاس اس اکثریتی فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں ہو گا۔
پاک فوج نے سانحہ 9 مئی کے بعد سخت حکمت عملی اختیار کی تھی اور اس واقعہ میں ملوث تحریک انصاف کے لیڈروں اور کارکنوں کو سخت سزائیں دلوانے کا تہیہ کیا گیا تھا۔ اس سانحہ کے نتیجہ میں اختیار کی گئی حکمت عملی کے تحت تحریک انصاف کے متعدد لیڈروں کو غائب کیا جاتا رہا ہے اور جب وہ کچھ عرصہ کے بعد برآمد ہوتے ہیں تو وہ کسی ٹی ٹاک شو میں جاکر 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں۔ یا پریس کانفرنس میں تبدیلی قلب کا اعلان سامنے آتا ہے۔ بظاہر تحریک انصاف کے جو لیڈر پارٹی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے، انہیں مسلسل قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا ہے۔ ان میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ بھی شامل ہیں۔ ان لیڈروں کو ایک مقدمہ میں ضمانت کے بعد کسی دوسرے مقدمہ میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔
9 مئی کے واقعات محض عسکری تنصیبات پر حملوں ہی کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ ملکی عسکری قیادت اسے فوج میں انتشار پیدا کرنے اور آرمی چیف کے خلاف بغاوت کروانے کا ہتھکنڈا سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج نے سانحہ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے خلاف سخت موقف اور طرز عمل اختیار کیا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کا سویلین انتظامی و عدالتی نظام بھی کسی حد تک فوجی قیادت کی خواہشات کا اسیر دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو عجلت میں کی گئی عدالتی کارروائی میں توشہ خانہ کیس میں سزا دلوا کر جیل میں بند کر دیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اگرچہ اس سزا کو معطل کر دیا ہے اور اس کے خلاف اپیل کی سماعت ہوگی لیکن ضمانت منظور ہونے کے فوری بعد انہیں سائفر کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس مقدمہ میں آج عمران خان کے علاوہ شاہ محمود قریشی کے خلاف فرد جرم بھی عائد کردی گئی ہے۔ ملکی عدالتی نظام ابھی تک عمران خان کو مناسب ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوا۔
اس پس منظر میں سپریم کورٹ کی طرف سے شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کے طریقہ کار کو مسترد کرنے کے علاوہ متعلقہ قانونی شق کو غیر آئینی قرار دے کر ایک حبس زدہ ماحول میں بنیادی حقوق کے تحفظ کی ایک موثر کوشش کی گئی ہے۔ سانحہ 9 مئی میں ملوث لوگوں کو ضرور سزائیں ملنی چاہئیں لیکن اس کے لیے ملک کے نظام عدل پر انحصار ضروری ہے۔ اگرچہ کمزور انتظامی ڈھانچے اور سیاسی نظام کی وجہ سے عدالتیں بھی بسا اوقات طاقت ور کی لاٹھی کا کردار ہی ادا کرتی ہیں۔ ایسے میں سپریم کورٹ کی طرف سے آئین کی پاسداری اور بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرنے کا اقدام ایک مستحسن فیصلہ ہے اور اس سے مایوسی کی فضا میں امید کی ایک کرن ضرور روشن ہوئی ہے۔
سانحہ 9 مئی کے تناظر میں شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدموں کا معاملہ درحقیقت ملک کے دو اہم اداروں فوج اور سپریم کورٹ کے درمیان اختیار کی کشمکش بھی سمجھی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ ماضی میں فوج کی طرف سے آئینی خلاف ورزی کو بھی ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت قبول کرتی رہی ہے۔ البتہ زیر غور معاملہ میں شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی اہمیت اجاگر کر کے عدالت عظمی نے درحقیقت فوج کو یہی پیغام دیا ہے کہ کسی ادارے کی خواہش پر شہریوں کے آئینی حقوق نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ اس طرح کسی گناہ گار کو سزا دینے یا شہریوں کے خلاف من پسند کارروائی کرنے میں حد فاصل قائم کی گئی ہے۔ اس حوالے سے یہ فیصلہ ملکی عدالتی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ ہے۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:اداروے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔