(تحریر: احمد کاظم زادہ)
غزہ پٹی کے مختلف علاقوں پر غاصب صیہونی حکومت کے حملوں سے اس علاقے کی مساجد اور اسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں۔ مساجد اور ہسپتالوں سمیت ہر عمارت اس حکومت کے جنگی طیاروں کے نشانے پر ہے۔ صیہونی حکومت کے توپ خانے نے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں پر اپنے حملوں کے تسلسل میں النصیرات کیمپ میں واقع الدعوہ روڈ کے قریب مساجد کے میناروں کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا۔ صیہونی حکومت غزہ پٹی میں کینسر کے مریضوں کے مصائب میں اضافہ کرنے اور انہیں ادویات سے محروم کرنے نیز علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے پر راضی نہیں ہے۔ وہ اسپتالوں کے ارد گرد بار بار حملوں اور بمباری سے ان مریضوں کو قتل کرنے کے درپے ہے۔ طبی عملے اور پناہ گزینوں کو الاقصیٰ اسپتال سے دور کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت کے جنگی طیاروں نے اس اسپتال کے اطراف کے علاقے پر 25 بار بمباری کی اور سرکاری اعلان کے مطابق پہلے 23 دنوں میں 8100 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق ان میں سے زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔
قابضین نے المعمدانی ہسپتال پر دانستہ بمباری اور خواتین اور بچوں کے قتل عام سے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے جرائم کی کوئی حد نہیں، گذشتہ چند دنوں کے دوران قدس ہسپتال سمیت دیگر ہسپتالوں پر حملے کے خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ صیہونی اس ہسپتال کو خالی کرانے کی مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔ القدس، ترکی اور الاقصیٰ کے تین ہسپتالوں پر بمباری کے بعد اب غزہ پٹی کے بڑے طبی مراکز میں سے ایک الشفاء ہسپتال کے ارد گرد شدید بمباری شروع ہوگئی ہے۔ قابضین کی جانب سے یہ حملے ان اسپتالوں کو خالی کرنے کا حکم دینے کے بعد کیے جاتے ہیں، لیکن جنگی حالات میں ان اسپتالوں کو خالی کرنا عملی طور پر ناممکن ہے اور ہزاروں زخمیوں اور بیماروں کو منتقل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل Tedros Adhanom Ghebreyesus نے صیہونی حکومت کی طرف سے قدس ہسپتال کو خالی کرنے کے انتباہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ مریضوں سے بھرے ہوئے ہسپتالوں کو خالی کرنا ممکن نہیں ہے۔” صحت کی دیکھ بھال ہمیشہ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق ہونی چاہیئے۔ غزہ میں طبی مراکز پر بمباری کا یہ سلسلہ ایسی حالت میں ہے، جب اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک بیان میں غزہ کے اسپتالوں پر بمباری کے دہرائے جانے اور ایک اور تباہی کے رونما ہونے کے امکان سے خبردار کیا تھا۔ غزہ کی پٹی میں قابض فوج کی جارحیت کے آغاز سے اب تک طبی ٹیموں کے 116 ارکان، امدادی ٹیموں کے 18 ارکان اور میڈیا کوریج میں مصروف 35 صحافی شہید ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چلڈرن فنڈ نے غزہ کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی: "غزہ میں بچوں کی صورتحال خوفناک ہے اور ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد ایک المیہ ہے۔” الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے وابستہ اس تنظیم کے ترجمان نے غزہ کے اسپتالوں کے تحفظ اور محفوظ انسانی راہداریوں کی تشکیل پر زور دیا ہے۔ پانی اور بجلی جیسی اہم ضرورتوں کے منقطع ہونے سے غزہ کی پٹی کے مکینوں کے لیے حالات بتدریج ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں اور پناہ کے متلاشیوں پر دباؤ میں اضافے نے اس علاقے میں انسانی امداد بھیجنا اور بھی ضروری بنا دیا ہے، تاہم صیہونی حکومت اس علاقے کے لوگوں کو بین الاقوامی امداد تک رسائی سے روکتی ہے اور اس طرح کے اقدامات میں رکاوٹیں ڈالتی ہے۔
دوسری طرف ملنے والی امداد کی رقم غزہ میں مقیم فلسطینیوں کی ضروریات سے میل نہیں کھاتی۔ ایک روٹی اور پانی کا ایک گلاس غزہ کے لیے دی جانے والی بین الاقوامی امداد میں سے ہر فلسطینی بچے کا روزانہ کا کم سے کم حصہ ہے۔ غزہ کی پٹی میں ایندھن کے داخلے کا راستہ بند ہونے سے اسپتالوں کے جنریٹرز نے بتدریج کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور غزہ کی صحت کی دیکھ بھال کا نظام مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر ہے۔
غزہ کے مکینوں کو بے گھر کرنے کا اسرائیلی حکومت کا مجرمانہ منصوبہ
صیہونی حکومت غزہ میں طوفان الاقصی کے اچانک آپریشن کی جوابی کارروائی کی آڑ میں اپنے جرائم کا جواز پیش کرتی ہے، لیکن دستیاب دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ "بنیامین نیتن یاہو” کی انتہاء پسند حکومت نے طوفان الاقصیٰ سے پہلے ہی غزہ کے مکینوں کی نقل مکانی کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق طوفان الاقصیٰ آپریشن کو ایک بہانے اور موقع کے طور پر استعمال کیا گیا اس حوالے سے بائیں بازو کے اخبار "ہارٹس” نے صہیونی انٹیلی جنس آرگنائزیشن کے تیار کردہ ایک خفیہ خطرناک منصوبے کا انکشاف کیا ہے، جس میں جنگ کے ایک دن بعد غزہ کے باشندوں کو صحرائے سینائی منتقل کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔
اس منصوبے کے مطابق اس نقل مکانی کو عملی جامہ پہنانے اور غزہ کو خالی کرانے کے لیے اسرائیل سینا علاقے کے شروع میں خیمے لگائے گا اور پھر شمالی سینا میں ان مہاجرین کے لیے مستقل جگہیں قائم کی جائیں گی۔ اس سازش سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ غزہ پٹی میں ٹاورز اور عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیے ملٹی ٹن بموں کا استعمال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں غزہ کے نہتے شہریوں پر دس لاکھ ٹن سے زیادہ بارود برسایا گیا ہے۔ غزہ میں اس وقت 2 لاکھ 300 ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔