(تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم)
غزہ پر سات اکتوبر کے بعد سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی جانب سے جنگ مسلط کر دی گئی ہے، دس ہزار کے لگ بھگ فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں اور پچیس ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ جہاں فلسطینیوں کو مشکلات کا سامنا ہے، وہاں غاصب صیہونیوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ فلسطینی مزاحمت نے ایک پائیدار جدوجہد کے ذریعے نہ صرف صیہونی دشمن کو اس کے منصوبوں سے پیچھے دھکیل دیا ہے بلکہ اس مزاحمت نے ہی دنیا کی سیاست کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ آج دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ یعنی سنہ1945ء کے بعد سے بحیرہ عرب میں گیارہ ممالک کے پچاس جنگی جہاز پہنچ چکے ہیں، امریکہ کے آٹھ جنگی بحری جہاز موجود ہیں۔ اسی طرح دیگر مغربی حکومتوں کے بیالیس جنگی جہاز فلسطین اور مشرق وسطی کے اطراف پانیوں میں موجود ہے۔
یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ کیا امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت اسرائیل کے لئے بربادی کا سامان مہیا کر رہی ہے؟ یا پھر خود اسرائیل کی غزہ پر مسلسل جارحیت کے نتیجے میں اسرائیل کے خلاف ہونے والی مزاحمت امریکی پالیسیوں کو چکنا چور کر رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہی اسرائیل شکست کھا رہا ہے؟ ان دو سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے مقالہ تحریر کیا جا رہا ہے۔ آئیں جائزہ لیتے ہیں کہ حقائق کیا کہتے ہیں۔؟ غزہ پر غاصب اسرائیل کے حملہ کے پہلے روز سے ہی امریکی حکومت نے اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے اور تاحال کرتی چلی آرہی ہے۔ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آ پائی۔اسرائیل پہلے ہی کی طرح معصوم انسانوں پر بمباری اور قتل عام کر رہا ہے۔ اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل کو جہاں جنگی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، وہاں ساتھ ساتھ معاشی نقصان بھی بڑی سطح کو پہنچ چکا ہے۔
ایک طرف اسرائیل میں صیہونی آباد کاروں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا معاملہ ہے تو دوسری طرف صیہونی آباد کاروں کی اسرائیل سے واپس یورپ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف ہجرت کا معاملہ ہے، پانچ لاکھ صیہونی آباد کار خیموں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ کئی شہر صیہونی آباد کاروں سے خالی ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی انویسٹمنٹ ایجنسی کی جاری کردہ سرکاری رپورٹ کے مطابق غاصب صیہونی حکومت کو جنگ کے پہلے پچیس ایام میں بیس ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسی طرح کئی ایک بڑی تجارتی کمپنیاں ہیں، جنہوں نے اسٹاک مارکیٹ سے اپنے شیئر اٹھانا شروع کر دئیے ہیں اور اسرائیل سے نکلنے کی تیار ی کر رہی ہیں۔ اسرائیل کے لئے ایک اور بڑا مسئلہ معاشرتی بحران کا ہے، جو کئی سالوں سے شدت پکڑتا چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح سیاسی بحران بھی کافی دباؤ میں ہے۔
امریکہ نے مسلسل نیتن یاہو کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے، لیکن گذشتہ تین دنوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ امریکہ کا رویہ غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ اپنی فوجی طاقت کو بحیرہ عرب میں کھینچ لایا ہے، تاکہ خطے میں اپنا کنٹرول حاصل کرے، لیکن اب اسرائیل کی مسلسل گرتی ہوئی سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورتحال نے امریکہ کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں کہ جب فلسطین مزاحمتی گروہوں حماس، جہاد اسلامی، القسام، القدس اور قاسم بریگیڈز کے ساتھ ساتھ اب اسرائیل کا مقابلہ شمالی فلسطین میں لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ سے بھی ہے اور وہاں اس محاذ پر بھی گذشتہ تین ہفتوں میں اسرائیل کے ایک سو پچاس فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ کئی ملین ڈالر کا فوجی نقصان بھی ہوا ہے۔ جدید نوعیت کے میرکاوہ ٹینک جو دو درجن سے زیادہ حزب اللہ نے کورنیٹ میزائل کے ذریعے تباہ کر دیئے ہیں۔
اب صورتحال میں ایک نیا زاویہ آیا ہے، وہ یمن ہے۔ یمن سے انصار اللہ افواج نے بھی غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کے لئے براہ راست اسرائیل کے خلاف جنگ میں اترنے کا اعلان کر دیا ہے۔ عملی طور پر انہوں نے لگاتار تین دن غاصب اسرائیل کے اہم مقامات جن میں تل ابیب، ایلات اور دیگر شہر شامل ہیں، ان کو اپنے بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے اور ڈرون بھی بھیجے ہیں، جس کے بعد خطے کی صورتحال تبدیل سے تبدیل تر ہوچکی ہے۔ امریکہ جو اس خطے کے پانیوں میں اپنے بحری جہازوں کو لانے کے بعد اس سوچ میں مبتلا تھا کہ وہ خطے میں اپنا کنٹرول قائم کرے گا، اب اس تمام تر صورتحال میں کہ جس میں اسرائیل کو شکست اور ہزیمت کا سامنا ہے، امریکہ کی پریشانی کو دوگنا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاید امریکہ اب اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت کو گرانے جا رہا ہے اور اس عنوان سے اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ بھی امریکہ نے ملاقات کی ہے اور حکومت کو تبدیل کرنے سے متعلق گفتگو زیر بحث آئی ہے۔
اس ساری صورتحال میں ایک اہم ترین پیش رفت جو سامنے آئی ہے، وہ امریکی محکمہ دفاع کے سابق مشیر کا ایک ایسا بیان ہے کہ جس میں انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکی پالیسیوں کے نتیجہ میں اسرائیل بربادی کے دہانے پر پہنچ رہا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کے سابق مشیر ڈگلس میک گریگر نے زور دے کر کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں خطرہ بڑھانے کی امریکی پالیسی اسرائیل کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ امریکہ خطے میں فوجی قوت بڑھا کر اور سمندری پانیوں میں بحری جنگی جہازوں کی تعداد بڑھا کر خود اسرائیل کے لئے مشکلات کا سامان مہیا کر رہا ہے، کیونکہ امریکہ کی ان تمام حرکات کے بعد ہی یمن سے بھی اسرائیل کے اہم مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ انہوں نے مزید بھی نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔
میک گریگر نے روس کی خبر رساں ایجنسی کی طرف سے رپورٹ کردہ ایک بیان میں کہا کہ ”ایک بڑی جنگ کے لیے تمام شرائط بالکل موجود ہیں۔ ہم (امریکا) تمام سمتوں میں صورتحال کو بڑھا رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بڑھتے ہوئے خطرات ایک کامیاب پالیسی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم نے یوکرین میں اس کی کوشش کی۔ ہم نے جنگ کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا ہے۔ آج یوکرین تباہ حال ہے۔ مجھے بہت ڈر ہے کہ اگر یہ علاقائی جنگ (غزہ کے خلاف صہیونی جارحیت) اسی طرح ترقی کرتی رہی، جس طرح میں دیکھ رہا ہوں تو اسرائیل کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ امریکی عسکری امور کے ماہر کے مطابق امریکا مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے ساتھ ”تصادم میں داخل ہو رہا ہے“ اور یہ صورت حال تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔