(شہزاد ملک)
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان پر وسطی پنجاب کے علاقے وزیر آباد میں ہونے والے حملے کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے لیکن ابھی تک اس مقدمے کی نہ تو حتمی تفتیش مکمل ہوئی ہے اور نہ ہی اس مقدمے کا مکمل چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
اس مقدمے میں محض ایک پیشرفت ہوئی اور وہ یہ کہ اس کیس میں گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان میں سے تین ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں اور باقی دو ملزم ٹرائل نہ ہونے کے باوجود ابھی تک جیل میں ہیں۔
جن ملزمان کو ضمانتوں پر رہا کیا گیا، ان میں احسن، طیب اور مدثر شامل ہیں۔ احسن اور مدثر کی ضمانت متعلقہ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے منظور کی تھی جبکہ اس مقدمے میں گرفتار تیسرے ملزم طیب کی ضمانت لاہور ہائی کورٹ نے منظور کی تھی۔
اس مقدمے کے دو مرکزی ملزمان جن میں نوید اور وقاص شامل ہیں، ابھی تک جیل میں ہیں اور گوجرانوالہ کی سینٹرل جیل میں سخت سکیورٹی زون میں قید ہیں۔
ملزمان کے وکیل میاں داؤد کے مطابق اس مقدمے کے چوتھے ملزم وقاص کی ضمانت کی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان ایک سال قبل یعنی تین نومبر کو اس وقت گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے جب وہ ایک احتجاجی مارچ کو لے کر لاہور سے اسلام آباد کی طرف جا رہے تھے کہ وزیر آباد کے قریب واقع اللہ والہ چوک پر ان پر حملہ ہوا تھا۔
ملزمان کے وکیل میاں داؤد کا کہنا ہے کہ عمران خان پر حملے کے مقدمے کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے ابھی تک تفتیش مکمل نہیں کی جس کی وجہ سے اس مقدمے کا ٹرائل شروع نہیں ہو سکا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے مؤکل بے گناہ ہیں اور پولیس نے محض رسمی کارروائی کرتے ہوئے ان کے مؤکلین کو گرفتار کیا۔عمران خان اس وقت گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے جب وہ ایک احتجاجی مارچ لے کر لاہور سے اسلام آباد کی طرف جا رہے تھے۔
یاد رہے کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم نوید احمد کا ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا گیا تھا جو انھوں نے پولیس کی تحویل میں دیا تھا۔
اس ویڈیو پیغام میں ملزم نوید احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر حملہ کیا کیونکہ وہ (عمران خان) اپنے خطاب کے دوران ’ایسی باتیں کر جاتے تھے جو ان کے مطابق دین کے خلاف تھیں۔‘
اس مقدمے کے پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کی گذشتہ دو درجن سے زائد سماعتوں کے دوران تھانہ سٹی وزیر آباد کے تفتیشی افسر کی طرف سے ایک صفحے کی رپورٹ متعقلہ عدالت میں جمع کروائی جاتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ’عبوری چالان رپورٹ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 173 کے تحت جمع ہے۔ حسب ضابطہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ لیکن ہر تین ماہ کے بعد نئی عبوری رپورٹ متعلقہ عدالت میں جمع کروانا لازمی ہے۔
واضح رہے کہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان کو لاہور کے سابق پولیس چیف غلام محمود ڈوگر کی سربراہی میں قائم ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تحقیقات کی روشنی میں گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کے زیر استعمال موبائل فون کے ڈیٹا سے ان کا آپس میں رابطہ ثابت ہوتا ہے اور جے آئی ٹی کے بقول ملزمان کافی عرصے سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری کا بھی اس بارے میں کہنا تھا کہ ان کے پاس اس حملے کی معلومات پہلے سے تھیں کہ عمران خان پر گوجرانوالہ اور گجرات کے درمیان حملہ ہو سکتا ہے۔
غلام محمود ڈوگر کی سربراہی میں قائم جے آئی ٹی میں شامل ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس ٹیم نے اس وقوعہ کے شواہد جمع کیے تھے اور تفتیش کو آگے لے کر چلے تھے تاہم تفتیش کو حتمی نتیجے پر پہنچانے سے پہلے ہی پنجاب حکومت ختم کر دی گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ عبوری چالان اس لیے بھی مکمل نہیں ہو سکا تھا کیونکہ سابق وزیر اعظم پر جب حملہ ہوا تھا تو انھیں سرکاری ہسپتال میں لے کر جانے کی بجائے شوکت خانم ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے ان کی میڈیکل رپورٹ بنوائی گئی اور مقدمے کے چالان میں اگر کسی نجی ہسپتال کی رپورٹ لگائی جائے تو عدالتیں اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتیں۔
جے آئی ٹی کے اس رکن کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس مقدمے کے چالان میں عمران خان کا بیان نہیں لگایا گیا جو مقدمے کے چالان کا ایک اہم حصہ ہے۔
جے آئی ٹی کے رکن کے مطابق عمران خان پر حملے میں ملوث نوید احمد کا ویڈیو بیان جس پولیس افسر نے اپنے موبائل پر ریکارڈ کیا تھا وہ پولیس افسر نہ تو جے آئی ٹی میں پیش ہوا اور نہ ہی اس نے وہ موبائل پیش کیا۔عمران خان پر حملے کے بعد نوید احمد کو کچھ ہی دیر میں ایلیٹ فورس نے پکڑ لیا اور مقامی تھانے لے گئے
یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد غلام محمود ڈوگر کی سربراہی میں قائم ہونے والی جے آئی ٹی ختم کر دی گئی تھی جس کے بعد پنجاب کی نگراں حکومت اور پھر پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔
اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اہلکار بھی شامل تھے تاہم پی ٹی آئی نے ان دونوں جے آئی ٹیز کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا اور یہ معاملہ ابھی تک لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے تاہم لاہور ہائی ورٹ نے ان جے آئی ٹیز کو ابھی تک نہ تو کام کرنے سے روکا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی حکم امتناعی جاری کیا۔
پنجاب پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق جب سے یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں گیا، اس کے بعد سے جے آئی ٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا اور نہ ہی عمران خان پر ہونے والے حملے کی تفتیش میں کوئی پیشرفت ہوئی۔
پنجاب کے سابق ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی امید نہیں کہ عمران خان پر ہونے والے حملے کا مقدمہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔
انھوں نے کہا کہ اگر جے آئی ٹیز اپنے کام میں سنجیدہ ہوتیں تو وہ ان افراد سے تو ضرور پوچھ گچھ کرتیں جن پر عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان پر حملے میں ملوث ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ پی ٹی آئی نئی بننے والی دونوں جے آئی ٹیز کے خلاف عدالتوں میں گئی لیکن ان عدالتوں نے انھیں کام کرنے سے تو نہیں روکا۔
احمد اویس کا کہنا تھا کہ ان جے آئی ٹیز کا نہ تو کوئی اجلاس ہوا اور نہ ہی پی ٹی آئی کے کسی رہنما کو اس ضمن میں پیش ہونے کا کوئی نوٹس جاری ہوا۔
انھوں نے کہا کہ جس طرح سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ نو سال بعد ہوا تھا اسی طرح اس عمران خان پر حملے کے مقدمے کا فیصلہ بھی جلد ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
انھوں نے کہا کہ وہاں پر بھی نامکمل چالان جمع تھا اور اس مقدمے میں بھی ویسی ہی صورتحال ہے۔
واضح رہے کہ نو مئی کو جب عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو اس وقت کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے عمران خان کا سرکاری ہسپتال سے اس ٹانگ کا معائنہ بھی کروایا تھا جس پر عمران خان کے بقول انھیں گولی لگی تھی۔
اس وقت کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیراعظم کو مبینہ طور پر ٹانگ پر لگنے والی گولی سے آنے والے زخم سے متعلق شوکت خانم اور سرکاری ہسپتال کی رپورٹ میں بہت زیادہ فرق ہے تاہم حکومت نے عمران خان کی وہ رپورٹ پبلک نہیں کی۔بشکریہ بی بی سی
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔