Breaking News
Home / کالمز / اسلامی تعاون تنظیم کے تاریخی اجلاس میں اسرائیل کیخلاف کسی عملی اقدام پر اتفاق کیوں نہیں ہو سکا؟

اسلامی تعاون تنظیم کے تاریخی اجلاس میں اسرائیل کیخلاف کسی عملی اقدام پر اتفاق کیوں نہیں ہو سکا؟

(کیوان حسینی)

سعودی عرب کے شہر ریاض میں غزہ کے حوالے سے منعقد ہونے والے تاریخی اجلاس کے اختتام پر اسلامی تعاون تنظیم کے 57 رکن ممالک کے رہنما اسرائیل کیخلاف کسی عملی اقدام پر متفق نہیں ہو سکے۔ اگرچہ کہ اجلاس میں اسرائیل کیخلاف مختلف نوعیت کے اقدامات کے لیے ہر قسم کی تجاویز پیش کی گئیں تھیں۔

ایران کی طرف سے پیش کی جانے والی سخت ترین تجویز، جس میں تمام رکن ممالک سے اسرائیلی فوج کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے کے لیے کہا گیا تھا، سے لیکر شام کے صدر بشار الاسد کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز جس میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا، ان میں شامل تھیں۔

یہ اجلاس، جسے آخری لمحات میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے رہنماؤں کے مشترکہ اجلاس کے طور پر متعارف کرایا گیا، ان مسلم اور عرب ممالک کے درمیان مفادات کے گہرے ٹکراؤ کی واضح عکاسی تھی جو عام طور پر دنیا کی تمام مسلم آبادی کی نمائندہ تنظیم کے طور پر خود کو متحد دکھاتے تو ہیں لیکن عملی اقدمات کے وقت ہر ایک کی الگ الگ ترجیحات ہوتی ہیں۔

درحقیقت اس اجلاس کو اچانک عرب لیگ کے ساتھ مشترکہ کارروائی کے طور پر متعارف کرانے کی وجہ یہ تھی کہ عرب لیگ کے اجلاس میں اس بات پر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا کہ ان ممالک کو کیا اقدام کرنا چاہیے۔

اسرائیل کی مخالفت کرنے والے کچھ ممالک میں شاید یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ حالیہ صورت حال اور ایران اور ترکی کی موجودگی کی وجہ سے تعزیری اقدامات کی مخالفت کرنے والے ممالک پر دباؤ ڈالنے کا یہ بہتر موقع ہے۔

عرب سفارت کاروں نے جو کچھ میڈیا کو بتایا ہے اس کے مطابق لبنان اور الجزائر نے عرب لیگ میں اسرائیل کو تیل کی فراہمی روک دینے کی تجویز دی تھی جس کی متحدہ عرب امارات اور بحرین نے مخالفت کی تھی۔

ہفتے کے روز ہونے والے اجلاس میں سربراہان مملکت کی سرکاری تقاریر ختم ہونے اور حتمی بیان کی اشاعت میں لمحہ بہ لمحہ تاخیر کے کئی گھنٹے بعد بالآخر یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مشترکہ کارروائی کا کوئی معاہدہ نہیں ہو پایا۔

دوسری طرف، دنیا کے 57 بڑے آبادی والے ممالک کے رہنماؤں نے ایک درخواست پیش کی جس میں سے اکثر پر عمل درآمد کی شاید کوئی امید نہیں ہے: اسرائیل کی ’جارحیت‘ کے خاتمے کے لیے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد کی منظوری۔

اب تک، روس اور برازیل جیسے ممالک کی طرف سے تجویز کردہ بہت ہلکی قراردادوں، جن میں اسرائیل سے نرم، سفارتی زبان میں جنگ بندی یا حتیٰ کہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا اعلان کرنے کے لیے کہا گیا ہے، کو بھی امریکہ نے مسترد کر دیا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی تک اپنی فوجی کارروائی نہیں روکے گا۔ امریکی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اصولی طور پر اپنے دیرینہ اتحادی کے اس موقف کی حمایت کرتی ہے اور اس سلسلے میں اسرائیل کو پابند کرنے والی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کر دے گی۔

دریں اثنا، اگرچہ امریکہ کا اصرار ہے کہ اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور شہریوں کی ہلاکت پر تشویش ہے، لیکن عملی طور پر حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اب تک ایک بڑی تعداد میں غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکت کے باوجود غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی کی واشنگٹن نے مخالفت نہیں کی۔اجلاس کے حتمی بیان میں ابراہیم رئیسی کے سخت موقف کی عکاسی نہیں کی گئی

اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بلاشبہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی کافی طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن ان ممالک کے درمیان گہری خلیج نے ان ممالک کو کبھی بھی اس طاقت سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں بنایا ہے۔

جدہ میں جاری عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کی کانفرنس کے میزبان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان نے کہا کہ ’اسرائیل نے جو کیا ہے اسے یہ بھگتنا ہوگا۔ انھوں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کارروائی کو جنگی جرائم قرار دیا۔‘

اردن کے بادشاہ عبداللہ نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ’یہ ایک خونریز جنگ ہے، جسے فوری طور پر روکنا ہو گا ورنہ پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔‘

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا کہ ’فلسطینی عوام کی نسل کشی جاری ہے‘ اور انھوں نے فلسطین کے لیے عالمی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایران کے صدر ابراہیم ریئسی نے سعودی عرب کے اپنے پہلے دورے کے موقعے پر کہا کہ اسرائیلی فوج کو دہشتگرد گروہ قرار دیا جائے۔ انھوں نے اس جنگ کو پھیلانے کے لیے امریکہ پر ذمہ داری عائد کی ہے۔

الجیریا نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

کچھ ممالک اتنا آگے جانے سے گریزاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس کے حتمی اعلامیے میں کم سے کم اہداف پر ہی توجہ مرکوز رہی، جن پر سب کا اتفاق ہو۔ ان مطالبات میں جنگ بندی، اسرائیل کی مذمت اور فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی قبضے کا خاتمہ شامل ہیں۔

اور یوں ریاض میں ہونے والا یہ اسلامی ممالک کا اجلاس اپنی تاریخی نوعیت کے باوجود درحقیقت ایک سنگین اور گہری تقسیم کا مکمل نظارہ بن کر رہ گیا۔بشکریہ بی بی سی

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے