اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک) احتساب عدالت نے توشہ خانہ اور 190ملین پاؤنڈ نیشنل کرائم ایجنسی کیسز میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جس پر نیب کی تفتیشی ٹیم نے چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کر کے مقدمے میں شامل تفتیش کرلیا۔ احتساب عدالت نے توشہ خانہ اور کرائم ایجنسی کیسز میں وارنٹ جاری کئے تھے، نیب ٹیم نے اڈیالہ جیل میں تفتیش کی۔ نیب پراسیکیوٹر کا عدالت کے روبرو کہنا تھا کہ انوسٹی گیش مکمل کرنے کی ضرورت ہے، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو وارنٹ کی تعمیل کیلئے اقدامات کا حکم دیا جائے جسکے بعد احتساب عدالت نے ہدایت جاری کردی،نیب تفتیشی ٹیم 5بجے اڈیالہ جیل پہنچی اور چیئرمین پی ٹی آئی سے ایک گھنٹہ 5منٹ سوالات کئے۔ احتساب عدالت اسلام آباد کےجج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی، پراسیکیوٹر عرفان بھولا، تفتیشی افسران محسن، وقار الحسن، میاں عمر ندیم اور دیگر پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ نے اس کیس میں کیا کیا ہے؟نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وہاں کیس زیر التواء ہے عدالت نے نہ حکم معطل کیا اور نہ کوئی اسٹینڈنگ آرڈر جاری کیا، لہٰذا عمران خان کے وارنٹ جاری کیے جائیں اور جیل سپریٹنڈنٹ کو اقدامات کی ہدایت کی جائے۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب وارنٹ کے بعد گرفتار کرینگے تو جسمانی ریمانڈ کیلئے یہاں ہی لائینگے، قانون 24 گھنٹے دیتاہے اس سے زیادہ ضرورت ہوئی تو عدالت میں درخواست دینگے، وارنٹ تعمیل کرانے ہیں جسکے بعد باقی اقدامات ہونگے، پہلے بھی ملزمان کو جیل میں وارنٹ تعمیل کرائے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکرٹ عدالت نے کیا کیا ہے؟
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ انہوں نے اجازت دیدی ہے کہ وارنٹ تعمیل کروا سکتے ہیں، گرفتاری اسلئے ڈال رہے ہیں کہ تفتیش کرنے اور انوسٹی گیشن کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو قانون کے مطابق وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیلئے اقدامات کا حکم دیدیا۔نیب راولپنڈی کی تفتیشی ٹیم نے چیئرمین پی ٹی آئی کو 190 ملین پاؤنڈ القادر یونیورسٹی کیس میں گرفتار کرنے کیساتھ شامل تفتیش بھی کر لیا، اڈیالہ جیل میں ایک گھنٹہ 5 منٹ سوالات کئے گئے۔
نیب راولپنڈی کی ٹیم تفتیشی آفیسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر وقار الحسن کی قیادت میں ہونے 5بجے اڈیالہ جیل پہنچی، جہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو کیس میں وارنٹ گرفتاری لئے جانے بعد گرفتاری ڈالتے ہوئے شامل تفتیش کیا گیا اور پھر اُن سے پوچھ گچھ ہوئی۔ علاوہ ازیں اسی کیس نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ القادر یونیورسٹی کیس میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نیب اسلام آباد آفس میں نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بطور ملزمہ پیش ہوئیں۔ نیب ٹیم نے بشریٰ بی بی سے پوچھ گچھ کی جسکے بعد انہیں 11 سوالوں پر مشتمل سوالنامہ فراہم کیا گیا جنکے جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔ذرائع کے مطابق نیب کی جانب سے بشریٰ بی بی کے سامنے 11 سوال رکھے گئے۔
(1)آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی اور کیا آپ نے اسلامی تدریسی کورس بھی کیا؟ (2)القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ بنانےکا مقصد کیا تھا؟ (3)کیا بطور ٹرسٹی ہونے کے ساتھ بطور استاد بھی کوئی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں؟ (4)کیا بطور ٹرسٹی یا استاد یونیورسٹی سے کسی قسم کی تنخواہ یا مراعات لیتی رہی ہیں؟ (5)القادر یونیورسٹی بنانےکا خیال کس کا تھا اور جگہ کا تعین کس نےکیا؟ (6)آپ بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی میں کیا ذمہ داریاں ادا کررہی تھیں؟
(7)فرحت شہزادی کو آپ کیسے جانتی ہیں؟ کیا آپ انکے مالی معاملات اور کردار کے بارے میں مطمئن ہیں؟ ذرائع کا کہنا ہےکہ نیب کے بقیہ سوال پیسے کی ٹرانزیکشن کے بارے میں ہیں۔ ادھر190ملین اسکینڈل میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا۔ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی کا نام نیب کی سفارش پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا۔ دوسری جانب نگران وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کیلئے وزارت قانون کی سمری منظور کرتے ہوئے سائفرکیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے جیل ٹرائل کی منظوری دیدی۔
سمری کے مطابق سیکورٹی خدشات کے باعث سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا۔29 اگست کو وزارت قانون نے جیل ٹرائل کیلئے این او سی جاری کیا تھا۔ سمری کے مطابق وزارت داخلہ اور کیس کی سماعت کرنے والے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے جیل ٹرائل کی سفارش کی، عمران خان کو درپیش سیکورٹی خدشات کی وجہ سے جیل ٹرائل کی سفارش کی گئی۔سمری کیساتھ اسپیشل برانچ کی تھریٹ ریورٹ اور جج کی سفارش کی کاپی بھی منسلک ہے۔عمران خان اور شاہ محمود قریشی کیخلاف 14 نومبر کو سائفر کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہوگی۔ عمران خان کی اوپن کورٹ سماعت کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست زیر التوا ہے۔