(سید مجاہد علی)
آج دو خبروں کا چرچا رہا اور ان کے حوالے سے اپنی اپنی سیاسی وابستگی کے مطابق خیال آرائی بھی ہوتی رہی۔ سوشل میڈیا نے چونکہ فوری اظہار خیال کا آسان ذریعہ فراہم کر دیا ہے، اس لیے کسی وقوعہ پر تبصرے سامنے آنے میں دیر نہیں لگتی۔ دوست دشمن یکساں طور سے کسی بھی معاملہ کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ تاہم نواز شریف اور عمران خان کے حوالے سے آنے والی خبروں میں دونوں لیڈروں کے لیے مقام عبرت ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ وہ سبق سیکھتے ہیں یا ذاتی انا میں تصادم کو ہوا دینے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
سامنے آنے والی ان دو خبروں میں سے ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کی بریت تھی۔ اور دوسری میں عمران خان کا یہ اعلان تھا کہ وہ 2 دسمبر کو منعقد ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات میں تحریک انصاف کے چئیر مین کے عہدے کا انتخاب نہیں لڑیں گے۔ اس پوزیشن کے لئے انہوں نے عبوری طور سے اپنی قانونی ٹیم کے ایک اہم رکن بیرسٹر گوہر علی خان کو نامزد کیا ہے۔ یوں یقین کیا جا رہا ہے کہ گوہر خان ہی تحریک انصاف کے نئے چیئرمین ہوں گے۔
ان دونوں خبروں کا تعلق چونکہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے اعلیٰ قائدین سے ہے، اس لیے ان کے حامی و مخالف اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق پرجوش اظہار خیال کرتے بھی دکھائی دیے۔ یوں ایک بار پھر ملکی سیاست میں پائی جانے والی خطرناک تقسیم نمایاں طور سے دیکھنے میں آئی ہے۔ ان تبصروں میں البتہ تقریباً ہر طرف سے اس پہلو کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ نواز شریف یا عمران خان کے حوالے سے کوئی بھی خبر صرف ایک خاص پارٹی یا گروہ کی حد تک اہم نہیں ہوتی بلکہ اس کا ایک قومی پس منظر بھی موجود ہے۔ یہ دونوں ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، قومی سیاست میں ان کی حمایت کرنے والے موجود ہیں اور دونوں ملکی سیاسی مستقبل میں کردار ادا کرتے رہنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی خبروں کو صرف کسی وابستگی کی بنیاد پر پرکھنے کی بجائے وسیع تر قومی تناظر میں اس کا جائزہ لیا جائے اور اس کے عواقب پر غور کیا جائے۔
ایون فیلڈ کیس میں اس سے پہلے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بری کیا جا چکا ہے۔ ان دونوں کو بھی نواز شریف کے ہمراہ اس کیس میں سزا دی گئی تھی۔ نواز شریف اس وقت چونکہ لندن میں مقیم تھے اور عدالتی مہلت گزرنے کے باوجود پاکستان نہیں لوٹے تھے، اس لیے عدالت نے انہیں مفرور قرار دیا تھا اور ان کے معاملہ کو مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے مقدمہ سے علیحدہ کر کے اس پر فیصلہ دے دیا گیا تھا۔ البتہ نواز شریف نے 21 اکتوبر کو وطن واپسی سے قبل عدالت سے عبوری ضمانت حاصل کرلی تھی اور بعد میں انہیں باقاعدہ ضمانت دے دی گئی۔ آج اس کیس پر متوقع فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ یہ معمول کی قانونی کارروائی تھی جس میں کسی دوسری طرح کے عدالتی حکم کی توقع نہیں تھی۔ ان کے شریک ملزمان بری کیے جا چکے تھے، استغاثہ نے الزامات پر اصرار کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ملزم کو بری کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ گویا احتساب بیورو نے عملی طور سے تسلیم کیا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران اس نے نواز شریف کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا تھا، وہ بے بنیاد تھا۔ اور ہائی کورٹ میں پیش کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس شواہد یا قانونی حوالے موجود نہیں تھے۔ نواز شریف کی سیاست کے خلاف متحرک عناصر اس عدالتی فیصلے پر نواز شریف یا اسٹبلشمنٹ کو مطعون کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ اس میں اگر کوئی قصور وار یا تنقید کے لائق ہے تو وہ نیب کا ادارہ ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے عدالتی فیصلوں کے بعد نیب کی ضرورت کو زیر بحث لایا جائے اور نام نہاد کرپشن کے الزامات میں سیاسی لیڈروں کی گرفت کرنے کے لیے اس ادارے کے کردار پر غور کیا جائے۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ نیب اس وقت موضوع بحث نہیں ہے۔ بلکہ نواز شریف کو مورد الزام ٹھہرانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی مہم جوئی میں چونکہ یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ سیاسی لیڈر اقتدار کے دوران میں بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں، اس لیے الزام لگاتے ہوئے حقائق، قانون یا تاریخی پس منظر پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ نواز شریف کو ایک خاص منصوبے کے تحت عدالتوں کے ذریعے نا اہل کروایا گیا تھا۔ اسٹبلشمنٹ چونکہ اب اپنے اس فیصلے کے منفی نتائج سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے، اس لیے اب اسے نواز شریف کو مسلسل قید رکھنے میں دلچسپی نہیں۔
البتہ اس معاملہ کے دو پہلو دلچسپ اور افسوسناک ہیں۔ ایک یہ کہ جس وقت نواز شریف کے خلاف پورے ریاستی جلال سے قانونی کارروائی ہو رہی تھی عمران خان کی قیادت میں ان کی حکومت اور پارٹی تحریک انصاف پوری طاقت سے کسی عدالتی فیصلوں سے پہلے ہی انہیں ’چور لٹیرا‘ قرار دینے پر اصرار کرتی رہی تھی۔ اب ان میں سے کسی کو شرمندگی یا پشیمانی کا احساس نہیں اور نہ ہی وہ یہ ماننے پر آمادہ ہوں گے کہ مکمل عدالتی کارروائی سے پہلے کسی کو مجرم ٹھہرا دینے کا طریقہ نامناسب اور کم تر اخلاقی سیاسی معیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ کل تک نواز شریف اور ان کے اہل خاندان یا ساتھی جیسے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے، اب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو تقریباً ویسے ہی الزامات کا سامنا ہے لیکن ان کے مخالف سیاسی لیڈر جن میں مسلم لیگ (ن) کے قائدین سر فہرست ہیں، اس طریقہ کو مسترد کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ان کا رویہ بعینہ وہی ہے جو عمران خان نے نواز شریف یا شہباز شریف کے خلاف اختیار کیا تھا۔ نون لیگ کے لیڈر یہی چاہتے ہیں کہ عمران خان کو کرپشن کے علاوہ ملک سے غداری کے الزامات میں بھی سخت سزا دی جائے۔ اس حوالے سے وہ شفاف عدالتی طریقہ کار کا مطالبہ کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ یہی دوغلی حکمت عملی ملکی سیاسی منظر نامہ کو شدت پسندی، نفرت اور گروہ بندی کی طرف دھکیل رہی ہے۔
اس معاملہ کا دوسرا اہم اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جس جج نے 2018 میں ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزا سنائی تھی، اب وہی جج برطانیہ سے منتقل ہونے والے 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمہ یعنی القادر ریفرنس میں عمران خان کے خلاف کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ جیسے 2018 میں یہ امر یقینی تھا کہ نواز شریف کو سزا سنائی جائے گی، اسی طرح اب بھی یہ پختہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ جج اب عمران خان کو کرپشن کے ان سنگین الزامات میں سزا سنا دے گا جو نیب نے ان کے خلاف عائد کیے ہیں۔ وقت تبدیل ہونے کے ساتھ ملزمان تو تبدیل ہو گئے لیکن جج وہی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ میں سزا یافتہ سب ملزمان کو بری کیا ہے تو اسے نیب کے طریقہ کار کے علاوہ متعلقہ جج کے کردار اور کوتاہی پر بھی سوال اٹھانے چاہئیں۔ خاص طور اسلام آباد ہائی کورٹ کو سوچنا چاہیے کہ جو جج بے بنیاد الزامات میں ایک سابق وزیر اعظم کو طویل سزا دے چکا ہے، اب اسے ایک دوسرے سابق وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر نہ کیا جائے۔ اس حوالے سے اگر نیک نیتی کا سوال نہ بھی اٹھایا جائے تو بھی ایک ہائی پروفائل کیس میں نا اہلی کا مظاہرہ کرنے والے جج کو اب عمران خان کے خلاف مقدمہ سننے پر مامور نہیں ہونا چاہیے۔
بدلے ہوئے سیاسی حالات میں عدالتوں سے ناموافق فیصلوں کے اندیشے ہی کی وجہ سے عمران خان نے فی الوقت تحریک انصاف کی سربراہی سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے آج اس فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ عمران خان ہی تحریک انصاف ہیں اور وہی اس کے حقیقی لیڈر رہیں گے لیکن الیکشن کمیشن کے ’متعصبانہ اور غیر آئینی‘ ہتھکنڈوں کی پیش بندی کے طور پر عمران خان نے الیکشن کمیشن کے حکم پر نہ صرف ایک بار پھر انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ وہ خود امیدوار بھی نہیں ہوں گے۔ اس اقدام کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ تحریک انصاف کا انتخابی نشان ’بیٹ‘ واپس نہ لیا جائے اور کسی بے بنیاد عذر پر تحریک انصاف کے لیے انتخابی عمل کا دروازہ بند نہ کیا جا سکے۔ اس تناظر میں یہ ایک ہوشمندانہ سیاسی فیصلہ ہے۔ اس فیصلہ سے عمران خان نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ تحریک انصاف بدستور انتخابات کے ذریعے اپنی سیاسی حیثیت منوانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور مشکلات کے باوجود انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا جائے گا۔
عمران خان اس سے پہلے اسمبلیوں سے استعفوں اور سیاسی عمل سے باہر نکل کر احتجاجی سیاست کے نتائج کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اس لیے اب جمہوری جد و جہد میں انتخابی عمل کو اہم سمجھنے کا عزم ایک خوش آئند اشارہ ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ مستقبل میں تحریک انصاف اسمبلیوں سے استعفے دینے یا سیاسی عمل سے علیحدہ رہنے کی غلطی نہیں کرے گی۔ حالات کے پہیے نے ثابت کیا ہے کہ احتساب کے نام پر سابق حکومتی عہدیداروں کو میدان سے باہر رکھنے کا کھیل پرانا ہے۔ اس شیطانی چکر کو روکنے کے لیے سب سیاسی جماعتوں کو باہمی عناد و دشمنی بھلا کر سیاسی بلوغت کا ثبوت دینا ہو گا تاکہ ملک میں شفاف سیاسی عمل مستحکم ہو سکے اور ریاستی اداروں و عدلیہ کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرنے کا طریقہ روکا جا سکے۔
عمران خان کو انتخابی سیاست کی اہمیت ماننے کے ساتھ ایک جمہوری نظام میں مخالف سیاسی پارٹیوں کی ضرورت و اہمیت کو تسلیم کرنے پر بھی آمادہ ہونا چاہیے تاکہ سیاسی مفاہمت اور قبولیت کا عمل شروع ہو سکے۔ اسی طرح نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو عمران مخالفت میں ان طریقوں کی سیاسی حمایت نہیں کرنی چاہیے جن کا وہ خود بھی سامنا کرتے رہے ہیں۔ نواز شریف کو اس وقت عمران خان کے بنیادی شہری و سیاسی حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ فاصلے کم ہوں اور یہ تاثر ختم ہو سکے کہ عمران کی جگہ اب نواز شریف اسٹبلشمنٹ کا ’ہرکارہ‘ بن رہا ہے۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔