بنگلہ دیش میں اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں مظاہروں کے دوران حراست میں لیے جانے والے پانچ ارکان جیل میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بی این پی کا کہنا ہے کہ اس کی پوری قیادت اور 20 ہزار سے زائد سیاستدانوں کو گزشتہ پانچ ہفتوں میں’غیرمعمولی کریک ڈاؤن‘ کے دوران گرفتار کیا گیا۔پولیس نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی جانب سے بتائے گئے گرفتاری کے اعداد و شمار کو مسترد کیا ہے تاہم یہ نہیں بتایا کہ کتنے اپوزیشن کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ بی این پی کے حامیوں جن میں حراست میں لیے گئے افراد کے اہل خانہ بھی شامل ہیں، نے اتوار کو ڈھاکہ میں کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔
گذشتہ مہینے ہیومن رائٹس واچ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 28 اکتوبر کی ریلی کے بعد کریک ڈاؤن کے دوران اپوزیشن کے حامی 10 ہزار کارکنوں کو گرفتار کیا چکا ہے۔ پولیس کے مطابق پُرتشدد واقعات کے دوران ایک پولیس افسر اور پانچ شہری ہلاک ہوئے جبکہ تقریباً 300 بسوں کو نذر آتش کیا گیا۔ بی این پی اور جماعت اسلامی جس پر گزشتہ ماہ پابندی عائد کی گئی تھی، نے دعویٰ کیا ہے کہ کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ پارٹی کے قانونی امور کے سربراہ قیصر کمال نے اے ایف پی کو بتایا کہ بی این پی نے گزشتہ دو ہفتوں میں اپنے کارکنوں کی حراست میں ہونے والی پانچ اموات کی تعداد بھی بتائی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ہم اموات کی مکمل عدالتی اور غیر جانبدارانہ تحقیقات چاہتے ہیں۔ یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بی این پی کے بہت سے کارکنوں کو ملک گیر کریک ڈاؤن کے تحت گرفتار کرنے کے بعد پولیس کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘
غزائی پور میں بی این پی کے 45 سالہ عہدیدار اسد الزمان خان ہیرا کا کاشم پور ہائی سکیورٹی سے ہسپتال لے جانے کے بعد انتقال ہو گیا۔ ان کے کزن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم نے ساتھی قیدیوں سے سنا ہے کہ ان پر پولیس نے تفتیش کے دوران تشدد کیا تھا۔ وہ جیل میں بیمار ہو گئے تھے اور حالت بگڑنے پر انہیں غازی پور صدر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی موت ہو گئی۔‘ اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل سجاد حسین نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران جیل میں پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تاہم دورانِ حراست تشدد کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ان (افراد) کی موت طبعی وجوہات کی بنا پر ہوئی۔‘ 17 کروڑ آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک میں 7 جنوری کو عام انتخابات ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد مسلسل چوتھی بار اقتدار میں آنے کی خواہاں ہیں۔ بی این پی اور دیگر جماعتوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے ہیں جن میں حسینہ واجد سے اقتدار چھوڑنے اور ایک غیر جانبدار حکومت کو انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حکومت نے ان مطالبات کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے حکام اپوزیشن کو دبانے اور عام انتخابات سے قبل مقابلے کو ختم کرنے کی واضح کوشش میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کر رہے ہیں۔‘