پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک حکم نامے کے تحت 9 مئی کے ان ملزمان کا فوجی ٹرائل بحال کر دیا ہے جو اس سے پہلے سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے روک دیا تھا۔ اس نئے حکم کے تحت فوج کی حراست میں موجود 104 ملزمان کا ٹرائل وہیں سے شروع ہو گا جہاں اُسے روکا گیا تھا۔ پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل فرہاد علی شاہ جو کہ 9 مئی کے مقدمات میں سپیشل پراسیکیوٹر بھی رہے ہیں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اپنا موقف بیان کیا۔ ’ملکی قانون کے مطابق جب اعلٰی عدلیہ کسی بھی وجہ سے کسی کیس کا ٹرائل روکتی ہے اور بعدازاں وہ حکم واپس ہو جاتا ہے جیسا کہ موجودہ صورت حال میں ہوا ہے تو کیس بالکل اسی جگہ سے شروع ہو گا جہاں روکا گیا تھا یعنی اب ٹرائل دوبارہ شروع ہو گا۔‘ خیال رہے کہ اکتوبر میں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں جاری ٹرائل روک دیا تھا، تاہم ان 104 ملزمان کی حراست فوج کے پاس ہی تھی۔
9 مئی کے ایک ملزم عبدالرحمان کے والد جنید رزاق جو کہ پیشے کے لحاظ سے خود بھی وکیل ہیں کے مطابق ’ٹرائل میں پیش رفت کے حوالے سے ہمیں کسی بھی طرح کی بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔‘ ’تاہم میں تواتر کے ساتھ اپنے بیٹے کے مقدمے کی پیروی کر رہا ہوں اور مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں اس کا عدالت میں دفاع کر سکوں۔‘ ایک اور ملزم اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حفیظ اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ ’فوج کے زیر حراست ملزمان کے لیے وکلا کا ایک پینل ہے جو ملزمان کی مشاورت سے ہی بنایا گیا ہے۔‘
’وہی عدالت میں پیش ہوتے ہیں کیونکہ خاندان کے افراد کو ٹرائل کے دوران ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ میری حسان سے ایک ہی ملاقات ہوئی تھی جو کہ فوجی عدالت میں نہیں تھی۔‘انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ’جب میری حسان سے ملاقات ہوئی تھی تو اس وقت ہی مجھے پتا چلا تھا کہ گرفتار اکثر افراد کے چالان عدالت میں جمع ہوچکے ہیں لیکن ان کا چلان ابھی پیش نہیں ہوا تھا۔‘ ’سپریم کورٹ کے پرانے فیصلے کے بعد معاملات سست روی کا شکار ہوگئے تھے، اب ظاہر ہے کہ ٹرائل کی اجازت مل گئی ہے لیکن اندر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا صرف وکیلوں کو علم ہے۔‘
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے جب اردو نیوز نے اس حوالے سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ ’سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ آئے تو اس کے بعد ہی اس موضوع پر بات کی جاسکتی ہے۔‘ یاد رہے کہ فوج نے 9 مئی کے ملزمان کی حراست دو طرح سے لی تھی۔ ایسے افراد جو پہلے ہی جیلوں میں تھے انہیں متعلقہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے تحریری حکم ناموں کے ذریعے لی گئی تھی۔ جو افراد مختلف تھانوں میں گرفتار تھے انہیں روزنامچوں میں اندراج کے بعد پولیس سے فوج کی حراست میں لے لیا گیا۔ فوج کو مطلوب افراد وہ تھے جو براہِ راست جلاؤ گھیراؤ میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔