تحریر: سہیل وڑائچ
چودھری ریاست علی:یہ عدالتیں کیا کر رہی ہیں،9 مئی کے کرداروں کو ریلیف دے رہی ہیں جس نے ملک کی معیشت کا جنازہ نکال دیا اس کے حق میں فیصلے کر رہی ہیں۔
قاضی عدالت علی: عدالتیں تمام فیصلے آئین کے اندر رہ کر رہی ہیں آئین کے اندر جو حقوق ہر شہری کو دیئے گئے ہیں وہی حقوق پی ٹی آئی کے لوگوں کو دیئے جا رہے ہیں۔
چودھری ریاست علی: آپ کو اندازہ نہیں ہےکہ آپ کیا کر رہے ہیں وہ آگیا تو اس نے پہلا حملہ عدالت پر اور دوسرا فوج پر کرنا ہے۔آپ لوگوں کے خلاف پہلے بھی تو اس نے ریفرنس بنائے تھے آپ کی تو چھٹی ہونے والی تھی ہم نے آپ کو عزت دی مگر آپ اس کی حمایت کر رہے ہیں جو آپ کو مکمل فارغ کرنا چاہتا تھا۔
قاضی عدالت علی: ہم آئین کے پابند ہیں اگر اس نے ہمارے خلاف زیادتیاں کیں تو کیا ہم بھی اس کےساتھ زیادتیاں کریں۔ یہ غیر جمہوری غیر انسانی رویہ ہوگا۔ ہمیں عمران خان سے محبت نہیں ہے لیکن ہماری ایک ساکھ ہے اور آئین کیساتھ ہماری کمٹ منٹ ہے اسلئے جہاں ریلیف بنتا ہوگا ہم دینگے۔
چودھری ریاست علی:عمران خان سے ہمارا اختلاف اسکی پالیسیاں ہیں اگر وہ آگیا تو ملک ڈیفالٹ کرجائیگا سب سیاستدانوں کو پھر جیل میں ڈال دیگا، ایک بار پھر گوگی اور پنکی کا راج ہوگا، نابالغوں کی کابینہ ہوگی میڈیا کا ناطقہ تنگ ہوگا فوج کے ساتھ تو باقاعدہ محاذ آرائی ہوگی۔
قاضی عدالت علی:عمران کو MONSTER مقتدرہ نے بنایا، ملک کی سیاست، عدلیہ، میڈیا ہر ایک کو اس کی خاطر کچل کر رکھ دیا، اب آپ اسے عدلیہ کے ذریعے توڑنا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہمیں آئین کی کتاب کے اندر رہنا ہے ہم آئین کی قیمت پر عمران کو روند نہیں سکتے اگر ہم نے ایسا کیا تو تاریخ میں ہم جسٹس منیر اور نسیم حسن شاہ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
چودھری ریاست علی:یہ ملک ہے تو آئین ہے معیشت ہے تو ملک ہے عمران خان کوریلیف دینے کا مطلب ہے نہ ملک رہیگا اور نہ اسکی معیشت بچے گی اور جب یہ ملک نہیں رہیگا تو آئین کہاں کھڑا ہوگا؟ آپ حقائق کوسمجھیں اور ان پر غور کرکے فیصلےکریں آپ کے فیصلے ملک کو بحران میں دھکیل دینگے۔
قاضی عدالت علی: دیکھیں چودھری صاحب! آئین کے مطابق فیصلے ہوئے تو یہ ملک بھی رہے گا اور معیشت بھی بہتر ہوگی دنیا بھر میں جہاں جمہوری حکمرانی ہے وہاں سیاسی اور معاشی استحکام دونوں آ جاتے ہیں۔
چودھری ریاست علی: آئین کا خیال ہمیں سب سے زیادہ ہے ہر روز مجھے مشورہ دیا جاتا ہے کہ مارشل لا لگا دو، عدلیہ اور سیاستدان سب ٹھیک ہو جائیں گے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ تو آپشن ہی نہیں۔ عدلیہ کو اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیےکہ وہ دبائو سے آزاد ہے اس کے فیصلوں پر عمل ہو رہا ہے حالانکہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ عدلیہ کی بات نہ مانیں تو یہ بندیال کورٹ کی طرح بے اثر ہو جائے گی مگر ہم نے ایسا نہیں کیا۔
قاضی عدالت علی: یہ نہ بندیال کا دور ہے اور نہ کھوسہ اور ثاقب نثار کا ہم تو انصاف اور آئین کے اصولوں پر چلیںگے آپ ہم سے گندے اور ناانصافی کے کام نہ کروائیں ملک کیلئے یہی بہتر ہے اور آپ کیلئے بھی یہی بہتر ثابت ہوگا۔
چودھری ریاست علی: پی ٹی آئی والے آپ کو کرپٹ کہتے رہے آپ کے خلاف مہم چلاتے رہے آپ کو عدلیہ سے نکالنے کے لئے ریفرنس بھیجا، ہم نے اس کے بالکل الٹ آپ کو دل و جان سے چیف جسٹس مانا آپ کے ہر حکم پر صاد کیا مگر آپ کو بھی ریاست کی مجبوریوں کو سمجھناہوگا۔
قاضی عدالت علی: جسٹس منیر سے لے کر جسٹس کھوسہ تک،جسٹس نسیم حسن شاہ سے لے کر جسٹس نقوی تک سب ریاست کے ساتھ ہی ملکر چلتے رہے مگر اسکے نتیجے میں ملک کا بھلا ہوا یا نقصان۔ ملک کا فائدہ تب ہوگا جب فیصلے صرف اور صرف انصاف کی بنیاد پر ہونگے۔
چودھری ریاست علی: آپ کو ہماری شرافت اور دیانت کا ذاتی طور پر علم ہے میرے کئی ساتھی ہمیں یہ طعنہ بھی سنا دیتے ہیں آپ کی شرافت کی وجہ سے اس طرح کے فیصلے آ رہے ہیں وگرنہ 75 سال میں کوئی ریاست کے خلاف فیصلے نہیں سنا سکا تو اب کیسے یہ ہو رہا ہے؟ آپ کو اپنے فیصلوں کے نتائج کا اندازہ نہیں آپ ملک کو بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
قاضی عدالت علی: طوفان آئے یا زلزلہ آئے ہمارا کام صرف انصاف ہے ہمیں نتائج سے غرض نہیں نتائج کو دیکھنا ریاست کا کام ہے، ہم اپنے اعمال اور اپنے انصاف کردہ فیصلوں کے جوابدہ ہیں۔
چودھری ریاست علی: آپ بھی دیکھیں آپ کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے، پشاور ہائی کورٹ نے کتنا جانبدارانہ فیصلہ کیا ہےہمیں فیصلہ کرنے والوں کی سیاسی وابستگی کا علم ہے وہ فیصلہ کرکے چھٹیوں پر چلے گئے ہیں ان سے رابطہ تک ممکن نہیں اس طرح تو عدلیہ سے محاذ آرائی ہو جائے گی۔
قاضی عدالت علی: یہ مقدمہ ہمارے پاس آئے گا تو ہم اس کے میرٹ ڈی میرٹ دیکھ کر فیصلے کریں گے، مقدمات اتنے کمزور ہیں اور مواد اتنا فضول ہے کہ یہ مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں اڑنے ہی تھے۔
چودھری ریاست علی: المیہ اور بدقسمتی یہ ہے کہ جب تک ریاست، عدالت کو غیر جمہوری اور غیر آئینی کام کہتی رہی وہ کرتی رہی ، اب تو ہم جمہوری نظام لانا چاہتے ہیں، الیکشن کروا رہے ہیں تو اب عدلیہ ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے۔
قاضی عدالت علی: ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن میں شفافیت ہو لوگ ریاست اور عدالت کی عزت کریں اس کی تذلیل نہ کریں۔ عوام کے فیصلوں کو قبول کریں گے تب ہی آگے بڑھیں گے۔
چودھری ریاست علی: آپ اپنی عظمت کیلئے ملک کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں، ریاست کسی بھی شخص کی ذاتی بڑائی سے بڑی ہے جو فیصلے آپ کر رہے ہیں اسکے برے اثرات ریاست پر پڑیں گے ہمارا سب کا کام ریاست کے مفادات کا تحفظ ہے۔
قاضی عدالت علی: انصاف کا اصول ریاست سے بھی بہت بڑا ہے انصاف ہے تو ریاست چلتی ہے ناانصافی ہو تو نہ ریاست چلتی ہے اور نہ معاشرہ۔ آج پاکستان جن بحرانوں کا شکار ہے اس کی وجہ عدلیہ اور ریاست کی ناانصافیاں ہیں اگر انصاف کا بول بالا ہوتا تو آج پاکستان واقعی جمہوری فلاحی مملکت ہوتا۔
چودھری ریاست علی: تضادستان کو پڑوس اور دنیا بھر سے سیکورٹی خدشات ہیں ہم ایٹمی قوت ہیں اس لئے دنیا بھر کی نظریں ہم پر ہیں، افغانستان سے دہشت گرد آ کر تباہی پھیلا رہے ہیں اگر آپ کےفیصلوں کی وجہ سے سیاسی اور معاشی عدم استحکام آگیا تو ریاست اور عدالت کچھ بھی نہیں رہے گا۔
قاضی عدالت علی: تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جہاں انصاف ہو وہیں لوگ آپس میں جڑتے ہیں، وہیں استحکا م آتا ہے ، وہیں معیشت اور نظام بہتر ہوتا ہے۔
چودھری ریاست علی: دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ لمحہ موجود میں ہر ادارے یا شخص کے لئے ریاست کیا ذمہ داری ڈالتی ہے آج کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کو مضبوط کیا جائے اور ریاست کیخلاف عزائم کو ناکام بنایا جائے آپ اس حوالے سے ہماری مدد نہیں کر رہے بلکہ ہمارے مخالفوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔
قاضی عدالت علی: ہمارے خیال میں مسائل کا اصل حل انصاف میں ہے ریاست کے حق میں اور سیاست کیخلاف فیصلوں سے حالات اور خراب ہونگے۔
چودھری ریاست علی: ہماری شرافت ہماری کمزوری بن رہی ہے ایسے حالات پیدا نہ کریں کہ ہمیں وہ کرناپڑے جو ہم کرنا نہیں چاہتے. . .