چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ ’جو کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن پر اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ ہے تو وہ اس کو ثابت بھی کرے۔‘ یہ ریمارکس انہوں نے تحریک انصاف کو بلے کا نشان دیے جانے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دیے۔ سنیچر کو پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کے معاملے پر سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے جس میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حامد خان اور بیرسٹر علی ظفر پیش ہوئے۔سماعت شروع ہونے کے بعد بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پارٹی کے اندر کسی بے ضابطگی کے الزام پر انتخابی نشان واپس لینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آئین کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور ہر پارٹی حق رکھتی ہے کہ ایک ہی انتخابی نشان پر الیکشن لڑے۔‘ بیرسٹر علی ظفر کے مطابق ’کسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنا عوام کے بنیادی حق کی نفی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، اس لیے جلدی دلائل دینے کی کوشش کروں گا۔‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے پاس بھی وقت کم ہے، آرڈر بھی لکھوانا ہے۔‘
انہوں نے آئین کے آرٹیکل 17 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں اس کی تشریح کی ہے۔‘ انہوں نے الیکشن کمیشن پر بدنیتی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرا پارٹی کو چیلنج نہیں کیا تھا اور اگر ایسا ہوتا بھی تو یہ سول کورٹ کا معاملہ تھا۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں شوکاز نوٹس جاری کیے گئے، کیا آپ کی حکومت کے وقت میں الیکشن کمیشن آزاد ادارہ تھا اور اب کسی کے ماتحت ہو گیا ہے؟‘ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں ہوئیں جن کے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ وہ پارٹی کے رکن ہی نہیں ہیں۔‘ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اکبر ایس بابر ک پارٹی کے بانی رکن ہیں اگر ان کی شکل پسند نہیں تو وہ الگ بات ہے لیکن ان کی رکنیت تو تھی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ رکن نہیں تھے، اگر وہ استعفے کے بعد کسی اور پارٹی میں گئے تو اس کا کوئی ثبوت دکھا دیں۔‘
چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’الیکش کمیشن پر بدنیتی کا جو الزام لگایا گیا ہے اس کو بھی ثابت کرنا ہو گا۔‘ پی ٹی آئی وکیل کی جانب سے بار بار اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیے جانے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ ’ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کہتا ہے، اصل لفظ فوج ہے، ہمیں کھل کر بات کرنی چاہیے۔‘ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت کے دور میں وہاں کون تھا، کیا چیف الیکشن کمشنر کا تقرر خود پی ٹی آئی نے نہیں کیا؟‘ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت سب ٹھیک تھا اب پی ٹی آئی کہتی ہے کہ سب ادارے اس کے خلاف ہو گئے ہیں، اگر وہ صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو اس سے ملک کے ادارے کمزور ہوں گے۔‘ سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے پی ٹی آئی کے وکیل سے پوچھا کہ ’کیا پارٹی نے اپنے جاری کردہ شیڈول کی پیروی کی؟ اس میں کیا نکات تھے کہ کون الیکشن سکتا ہے کون نہیں؟‘ انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی، شکایات ملنے پر ہی کارروائی ہوئی۔‘