عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کو بَلّے کے نشان سے محروم ہونا پڑا ہے جس کے باعث اس کے امیدوار اب آزاد حیثیت میں انتخابات لڑ رہے ہیں۔ ان امیدواروں کو الیکشن کمیشن کی جانب سے مختلف انتخابی نشانات الاٹ کیے گئے ہیں۔ پارٹی نشان سے محروم ہونا اور انتخابی عمل سے باہر ہونا پی ٹی آئی کے لیے ایک دھچکا ضرور ہے لیکن پی ٹی آئی کے حامیوں نے اس فیصلے پر افسوس کرنے میں وقت ضائع کرنے سے گریز کیا ہے۔پارٹی نے اپنے حامیوں کو مختلف طریقوں سے تحریک دی ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں پارٹی کے نامزد امیدواروں کے انتخابی نشانات کی تشہیر جاری رکھیں۔ اسی طرح پارٹی کے لیے اپنے ووٹرز کو مختلف انتخابی نشانات کے باوجود ایک ’نظریے‘ پر اکھٹا کرنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے
لیکن سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے حامی اپنی تشہیری مہم کو دلچسپ طریقوں سے چلا رہے ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے بعض سابق وزرا اور ارکان اسمبلی نے ان نشانات کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے۔سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انہیں بوتل کا نشان الاٹ کیا ہے جب کہ وہ وفاقی وزیر رہ چکے ہیں اور ضابطے کے تحت سابق ارکان کو انتخابی نشان الاٹ کرنے میں فوقیت دی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں مزید کہا کہ ’انتخابی نشان الاٹ کرنے سے پہلے امیدواروں سے ان کی رائے لی جاتی ہے۔ ریٹرننگ افسر سے بار بار رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔‘ اسی طرح کوہاٹ کے حلقہ پی کے 90 سے امیدوار آفتاب عالم نے بینگن کا نشان الاٹ کیے جانے کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔
سابق صوبائی وزرا کامران بنگش، آصف خان، آفتاب عالم اور شفیع اللہ نے بھی انتخابی نشانات کے خلاف درخواستیں دائر کی ہیں جن میں الیکشن کمیشن، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر (ڈی آر او) اور ریٹرننگ افسروں کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ’کامران بنگش کو وائلن کا انتخابی نشان دیا گیا جب کہ ان کے مخالف امیدوار کو باجا دیا گیا ہے، دونوں نشان ایک جیسے نظر آرہے ہیں، ووٹرز کو فرق کرنے میں دشواری ہو گی۔ کامران بنگش کے مخالف امیدوار کا نام بھی کامران ہی ہے۔‘ تاہم الیکشن کمیشن کے ترجمان نے منگل کے روز نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے متعلقہ ڈی آر اوز اور آر اوز کو اس حوالے سے ہدایات جاری کر دی ہیں۔
ترجمان نے متعلقہ آر اوز اور ڈی ار اوز کو انتخابی نشانات کی تبدیلی سے منع کیا ہے۔ ترجمان کے مطابق ’انتخابی نشان میں تبدیلی اگر لازمی ہو تو کمیشن سے پیشگی اجازت لیں کیونکہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی شروع ہو چکی ہے اور ممکن ہے کہ انتخابی نشان کی تبدیلی ممکن نہ ہو سکے۔‘ اِن درخواستوں کے برعکس پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے رہنما جبران الیاس نے اپنے ایکس پر لکھا، ’آج کے دن (سپریم کورٹ کے فیصلے کا دن) سوگ منایا جانا تھا لیکن یہ کوئی اور ہی جنریشن ہے۔ انصافینز نے اس دن کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت سب سے زیادہ تفریحی دن میں تبدیل کر دیا ہے۔‘ پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ایکس پر ’انتخابی نشان عمران خان‘ کا ٹرینڈ بھی چلایا گیا۔ اسی حوالے سے ایک صارف نے لوک گلوکار ملکو کا مبینہ گانا شیئر کیا جس میں وہ ’ٹوٹا ساڈی جان دا اے۔ نشان پاویں کوئی بھی ہووے، ووٹ ساڈا خان دا اے‘ گا رہے ہیں۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی و رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر نے ایک پرانی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا، ’انتخابی نشان وہیل چیئر‘۔ اس ویڈیو میں انہیں وہیل چیئر تقسیم کرتے ہوئے اور وہیل چیئر پر بیٹھے افراد سے ملتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ایک صارف نے اپنے حلقے این اے 46 سے پارٹی کے نامزد آزاد امیدوار عامر مسعود مغل کے انتخابی نشان ’بینگن‘ کی تشہیر کرتے ہوئے ایک گانا شیئر کیا جس کے بول کچھ یوں ہیں، ’میں ہوں بینگن تازہ، میں ہوں صدیوں کا راجہ، چاہے بنا لو بھرتا میرا چاہے بنا لو بینگن باجا‘ ہیں۔ ایک طرف اگر پی ٹی آئی کے نامزد آزاد امیدوار اپنے انتخابی نشانات کے حوالے سے دلچسپ تشہیری مہم چلا رہے ہیں تو دوسری طرف عوام بھی انتخابی نشانات کا حوالہ دیتے ہوئے مختلف مطالبات کر رہے ہیں۔ اِسی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ’جب جیت جائیں تو تھالی کا بینگن نہ بن جانا، یعنی غیر مستقل مزاجی نہ اختیار کر لینا۔‘ سوشل میڈیا پر صارف نے لکھا کہ ’اب بینگن کی خریداری میں اضافہ ہو گا۔ ہر شخص ایک بینگن خریدے اور اپنے گھر کے باہر لٹکائے اور بینگن کو ووٹ دیں۔‘
کئی امیدواروں کو چارپائی بھی بطور انتخابی نشان الاٹ کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کئی ویڈیوز اور دلچسپ نعرے بھی زیر گردش ہیں۔ ایک صارف نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا، انتخابی نشان چارپائی والے اپنی انتخابی مہم یوں چلائیں، ’ویڈیو میں پی ٹی آئی کی ٹوپیاں پہنے چند افراد چارپائی اٹھائے نعرہ بازی کر رہے ہیں۔‘
ایک صارف نے چارپائی پر پی ٹی آئی کا رنگ چڑھانے کی ویڈیو بھی شیئر کی۔
صارف احمد حسن بوبک نے دلچسپ نعرے پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’این اے 109 جھنگ سے صاحبزادہ محبوب سلطان کا انتخابی نشان چارپائی، ویڈیو میں عوام ’آئی آئی چارپائی‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ظفر اللہ وزیر نے عمران خان کی مختلف تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’جن کا انتخابی نشان، پیالہ، چارپائی، بوتل یا ٹینس ریکٹ ہے، ان کے لیے پیار سے، اس پوسٹ میں عمران خان کو چارپائی پر لیٹے، پیالہ ہاتھ میں پکڑے، ریکٹس سے کھیلتے اور بوتل پکڑے دکھایا گیا ہے۔ ‘فرح درانی نامی صارف نے سرگودھا کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’سرگودھا میں پی ٹی آئی امیدواروں کو پیالہ بطور انتخابی نشان دیا گیا ہے۔ اب لوگوں نے کپ میں چائے پینا ترک کر کے پیالے میں چائے پینا شروع کر دی ہے۔ ویڈیو میں کئی افراد پیالے میں چائے پیتے ہوئے کہہ رہے ہیں ’عمران خان سے بلّے کا نشان لے لیا گیا۔ اب ہم سب کپ کی بجائے پیالے میں چائے پی رہے ہیں۔‘ ویڈیو میں تمام افراد نے چائے سے بھرے پیالے تھامے ہوتے ہیں۔
ضیا نامی صارف نے مختلف حلقوں میں پی ٹی آئی امیدواروں کے لیے انتخابی نشان کی ممکنہ تشہیر پر مبنی ایک تھریڈ پوسٹ کیا۔ اس تھریڈ میں انہوں نے کئی انتخابی نشانات کو پی ٹی آئی کے جھنڈوں، عمران خان اور دو رنگوں سے مزین کیا ہوا ہے۔ اپنے تھریڈ میں انہوں نے بوتل، چینک، چمٹہ، بکری، باؤل، گھڑیال، وکٹس، جہاز، سائیکل، درانتی، فاختہ، انار، کمپیوٹر اور بطخ سمیت کئی دیگر نشانات پر پی ٹی آئی کا جھنڈا اور رنگ لگا کر تشہیر کی ہے۔ انتخابی نشانات کی تشہیر کے لیے انہوں نے عمران خان کی ملکہ الزبتھ دوم سے ملاقات کی تصویر استعمال کی۔ اسی طرح سرخ اور سبز رنگ کے بنچ پر عمران خان کو بیٹھا ہوا دکھا کر انہوں نے بنچ کے نشان کی تشہیر کی۔مبصرین کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان میں عام انتخابات کے دوران آزاد امیدوار اپنے انتخابی نشانات کی اس قدر دلچسپ انداز میں تشہیر کر رہے ہیں۔
اس سے قبل آزاد امیدوار اپنے متعلقہ حلقے میں روایتی انداز میں تشہیر کرتے رہے ہیں تاہم اس بار ایک بڑی سیاسی جماعت کے انتخابی عمل سے باہر ہونے کے بعد ملک گیر تشہیر جاری ہے۔ انتخابی تشہیر سے متعلق ضابطہ اخلاق انتخابی نشانات اور انتخابی تشہیر سے متعلق الیکشن کمیشن نے اپنا ضابطہ اخلاق بھی جاری کر رکھا ہے جس کے مطابق بل بورڈ اور وال چاکنگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی تشہیر کے لیے بنائے گئے پوسٹر کا سائز 23/18 انچ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے، ہینڈ بل اور پمفلٹ کا سائز 9/6 انچ سے زیادہ نہ ہو جبکہ بینر اور پورٹریٹ کے لیے بالترتیب 9/3 فٹ اور 3/2 فٹ تک کے سائز کی اجازت دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابی تشہیر کے لیے قرآنی آیات، احادیث اور دیگر مقدس چیزوں کی حرمت برقرار رکھنا لازم ہے۔ تشہیری مواد پر سرکاری اہلکاروں کی تصاویر چھاپنے پر بھی مکمل پابندی لگائی گئی ہے۔ تشہیری مہم کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر متعلقہ افسروں کو الیکشن کمیشن ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا پابند قرار دیا گیا ہے۔