Breaking News
Home / کالمز / پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اور مقتدر قوتوں کے حاکم؟

پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اور مقتدر قوتوں کے حاکم؟

(تحریر: ارشاد حسین ناصر)

پاکستانی کی اس وقت سب سے بڑی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی ہے، جس کو پونے چار سال تک مرکزی حکومت میں رہنے کے بعد ایک متنازعہ رجیم چینج آپریشن کے نتیجہ میں عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ اس کے باوجود اس کے پاس پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور کے پی کے میں اس کی حکومت ہے۔ پنجاب میں اس کی اتحادی حکومت ہے، جس کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ کا تعلق قاف لیگ سے ہے۔ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے، پی ٹی کے چیئرمین عمران خان اپنی عوامی حمایت کے عروج پر چل رہے ہیں۔ ان کی پاپولرٹی کا گراف روز بروز بڑھا ہے۔ اس لئے کہ جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے ہیں، ان میں پی ٹی آئی نے زیادہ نشستیں جیتی ہیں، جبکہ رجیم چینج آپریشن کے بعد سے مسلسل پی ٹی آئی نے بڑے بڑے جلسے اور پروگرام کئے ہیں۔ اس وقت بھی عمران خان لاہور سے راولپنڈی اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لاہور لبرٹی چوک سے 28 اکتوبر کو شروع ہونے والے لانگ مارچ کو جی ٹی روڈ سے راولپنڈی اسلام آباد جانتے ہوئے وزیر آباد میں 3 نومبر کو ایک سانحہ سے دو چار ہونا پڑا۔

پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت جس میں خود عمران کان بھی موجود تھے، مرکزی کنٹینر پر فائرنگ کا ایک وقوعہ ہوا، جس کے نتیجے میں عمران خان اور کچھ دیگر قائدین زخمی ہوئے۔ اس دوران بھاگ دوڑ اور ہنگامی صورتحال میں فائرنگ کرنے والے ایک جوان کو اسلحہ سمیت مارچ میں شامل ایک اور جوان نے پکڑ بھی لیا، جس نے بڑے دھڑلے سے اپنی واردات کو قبول بھی کیا۔ یاد رہے کہ اس حملے کے دوران فائر لگنے سے ایک شخص کی موت بھی ہوئی، جس کے بارے بعض ذرائع نے کہا ہے کہ مرنے والے شخص کو لگنے والا فائر کا ہتھیار وہ نہیں، جو گرفتار ہونے والے شخص سے برآمد ہوا ہے، یوں یہ قتل بھی مشکوک سا بنا دیا گیا ہے۔ حملہ آور نے اپنے مختلف ویڈیو بیانات میں اپنے حملے کی واردات کو مذہبی رنگ دینے کی بھی کوشش کی۔ جس کا مقصد بہرحال سب پر واضح تھا کہ اس حملے کو ماضی میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل (جن کاتعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا) کو قاتل نے مذہبی رنگ دیا تھا، یہ بھی اسی طرح کی واردات قرار دی گئی۔ البتہ اس میں عمران خان محفوظ رہے۔

جب یہ حملہ ہوا تو اس کا الزام بھی پی ٹی آئی کی قیادت بالخصوص اس کے میڈیا ونگ نے سوشل میڈیا کمپین کے طور پر مقتدر قوتوں کی طرف موڑا، جبکہ اس سے قبل پاکستان کے معروف انویسٹی گیٹیو جرنسلسٹ ارشد شریف کے 23 اکتوبر کو کینیا میں المناک انداز میں قتل کا الزام بھی پاکستان کے مقتدر حلقوں کی جانب لگایا گیا، جس کے نتیجہ میں پاکستان فورسز کی میڈیا اتھارٹی آئی ایس پی آر اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ندیم انجم کو باقاعدہ پریس کانفرنس کرنا اور وضاحت دینا پڑی۔ شاید ایسا پہلی بار ہوا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ نے اپنی پوزیشن کلیئر کرنے اور ایجنسی پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کیلئے میڈیا کا سامنا کیا۔ عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا، ان حالات میں ملک کا سیاسی منظر نامہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اصل مسئلہ جسے سب جانتے ہیں، وہ نئے آرمی چیف کا تقرر ہے، جس کی پاکستان جیسے ملک میں بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ وگرنہ ہمارے ہمسایہ ممالک میں کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کون آرمی چیف ہے، جبکہ انہیں پاکستانی آرمی چیف کی خبر ضرور ہوتی ہے۔

موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر تک ہے، اس اہم ایشو پر ہی وزیراعظم پاکستان شہباز شریف لندن گئے ہیں، جہاں ان کی اپنے بھائی اور پارٹی قائد نواز شریف سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اسی یشو کی وجہ سے انہیں اپنا قیام بڑھانا پڑا ہے۔ ملکی حالات کے بارے میں عام آدمی سخت پریشان ہے، جن کے ایشوز پر کوئی بھی بات نہیں کر رہا۔ عام عوام کا ایشو مہنگائی ہے، اشیائے خورد و نوش کی روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں، جو گذشتہ سات ماہ میں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ اس مہنگائی کا طوفان اس وقت شروع تھا، جب پوری دنیا میں کرونا نے پنجے گاڑے تھے۔ کرونا وباء کے دوران اشیاء کی بڑھنے والی قیمتوں کو واپس لانا تو دور کی بات ہے، انہیں برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات اور اس کی وجہ سے کرایوں کا بڑھنا، بجلی اور گیس کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھنے کا سارا اثر عام عوام پر ہی ہوتا ہے۔

مہنگائی جتنا بھی بڑھ جائے، اس کے نتیجہ میں بیچارہ غریب اور سفید پوش طبقہ ہی چکی میں پستا ہے۔ یہ طبقہ پہلے سے کساد بازاری اور مہنگائی کے ہاتھوں مرے جا رہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں آج غیر یقینی صورتحال میں ایسی غیر مستحکم حکومت ہے، جس کی تمام تر توجہ اپوزیشن کے حملوں کا مقابلہ کرنے پر ہے۔ اسے عوامی مسائل کے حل کیلئے فرصت ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت اگلے سیشن کیلئے دستبردار ہوچکی ہے۔ اگر یہ حکومت نہ بنتی تو پی ٹی آئی کی حکومت پر شدید دبائو ہوتا کہ اپنی کارکردگی دکھائے، جس سے ان کی جان چھوٹ گئی اور انہوں نے عوامی جدوجہد کے ذریعے اپنے بیانیہ کو تقویت دی اور پاکستان کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات کرنے اور لوگوں کو ساتھ ملانے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ موجودہ حقیقی آزادی مارچ بھی ان کی اسٹریٹیجی کے مطابق کامیاب جا رہا ہے، جس میں کم از کم دو صوبوں کی عوام کو موبلائز کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے میں حقیقی آزادی مارچ میں لوگوں نے بھرپور شرکت کی ہے، جس کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو، اگلے الیکشن جس کی تاریخ لینے کیلئے یہ لانگ مارچ کیا جا رہا ہے، اس کی تیاری اور عوامی رابطہ مہم کے طور پہ سود مند رہیگا۔

عمران خان نے اگرچہ وزیر آباد حملے کے بعد لاہور میں ڈیرے لگا لئے ہیں، مگر سیاسی حالات میں نت نئی جدت لائی جا رہی ہے۔ لاہور میں بیٹھ کر بھی لانگ مارچ کی قیادت دیگر قائدین سے کرواتے ہوئے عوامی رابطہ مہم کو مزید پھیلا دیا ہے اور وہ علاقے جو جی ٹی روڈ پر نہیں آتے تھے، وہاں بھی اجتماعات اور ریلیز نکالی ہیں۔ ان میں چکوال، منڈی بہائولدین، جھنگ کو بھی شامل کیا گیا ہے، جہاں پی ٹی آئی کا رابطہ بڑے عرصہ سے نہیں تھا۔ اب اس مارچ کے اسلام آباد پنڈی پہنچنے کی تاریخ بہت سوچ سمجھ کر دی گئی ہے، جب نئے آرمی چیف کے تقرر کا اعلان ہوچکا ہوگا۔ نیا آرمی چیف کوئی بھی آئے، اس کے آنے سے بہرحال حالات میں کافی تبدیلیاں سامنے آسکتی ہیں، منظر نامہ یکسر بدل بھی سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا چونکہ دیگر تمام پارٹیوں سے زیادہ ایکٹو و فعال ہے اور ہمیشہ پاکستان میں ٹرینڈ سیٹر کا کام کرتا آرہا ہے، بالخصوص رجیم چینج آپریشن سے لیکر اب تک سوشل میڈیا کمپین سے اس نے اپنی طاقت کو منوایا ہے۔

تمام تر پریشر اور سختیوں نیز دھمکیوں کے باوجود پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی آراء اور موقف کو تبدیل نہیں کیا جا سکا، اب بھی اگر کوئی کھل کر اسٹیبلشمنت کے خلاف سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے تو وہ اسی جماعت سے وابستہ لوگ ہیں۔ ورنہ حالات سب کے سامنے ہیں کہ ایک موجودہ سینیٹر اور جماعت کے مرکزی رہنماء اعظم سواتی کو ایک ٹویٹ کرنے پر کتنی بڑی سزا دی گئی۔ اس کے باوجود لوگ اس پریشر کا مقابلہ کر رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے لوگوں کا تعلق کسی مذہبی گروہ سے بھی نہیں کہ جو جنت، جھنم، حلال، حرام، ثواب و گناہ کے چورن بیچ کر اپنے کارکنان میں شدت پیدا کرتے ہیں اور مقابل کیلئے مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں کے لوگوں پر جب سختی آئی، فورتھ شیڈول کی دھمکیاں ملیں، تھانوں میں حاضری کا کہا جانے لگا تو لوگ جماعتوں سے لاتعلق ہو گئے، جبکہ پی ٹی آئی کے لوگ تمام تر سختیوں کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ جماعت ماضی میں کنگز پارٹی قاف لیگ کی طرح نہیں، جو اقتدار کی چھتری فراہم کرنے والوں کی کمزور گرفت کے بعد بکھر گئی تھی اور اس کے رہنما جدھر سے آئے تھے، ادھر ہی واپس ہو لئے تھے۔

اب تک پی ٹی آئی سے کسی بڑے لیڈر کو توڑا نہیں جا سکا، اسی طرح مرکز، کے پی کے اور پنجاب میں اپنی حکومت کے ادوار میں اگرچہ کچھ بڑا کام نہیں کرسکے ہونگے، مگر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کسی بڑی کرپشن کا الزام سامنے نہیں لایا جا سکا، جس کی بنیاد پر پرچے کاٹے گئے ہوں۔ دھونس، دھمکیاں اور پراپیگنڈہ تو خیر چلتا ہی رہتا ہے۔ بہرحال اگر ملک کے موجودہ حالات کو دیکھیں اور مستقبل قریب کا منظر نامہ ذہن میں لانا چاہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آرمی چیف کی تبدیلی کے عمل کے بعد بہت کچھ بدل جائے گا، ممکن ہے جو کسی نے نہیں سوچا، وہ بھی ہو جائے۔۔ یہ پاکستان ہے، یہاں کسی بھی وقت، کچھ بھی ممکن ہے، اس لئے کہ ایک فیصلہ وہ ہوتا ہے، جو عوام کرتی ہے، اپنے ووٹ کی پرچی سے، اپنی عوامی شرکت سے، جلسے جلوسوں اور ریلیز سے اور ایک فیصلہ وہ ہوتا ہے، جو مقتدر قوتیں کرتی ہیں۔ مقتدر قوتوں کے اوپر بھی مقتدر ہیں، جن کا کوئی نام نہیں لیتا، مگر سب جانتے ہیں ک پاکستان میں اقتدار کا کھیل ہمیشہ امریکہ و سعودیہ کے جوائنٹ ایڈونچر سے کھیلا جاتا ہے، جنہیں ہم مقتدر جانتے ہیں، وہ خود بھی ان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے