Breaking News
Home / کالمز / نئے سپاہ سالار سے وابستہ امیدیں

نئے سپاہ سالار سے وابستہ امیدیں

(رپورٹ: سید شاہریز علی)

عالم اسلام کی واحد اسلامی ایٹمی ریاست پاکستان کی افواج کو پیشہ وارانہ صلاحیتوں، دفاعی حکمت عملی اور مضبوط عسکری نظام کیوجہ سے اسلامی دنیا سمیت اقوام عالم میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ آئین پاکستان اور عسکری قواعد و ضوابط کے تحت پاک فوج کا فرض اولین ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہے، تاہم اس کے باوجود پاکستان کے سپاہ سالار کی حیثیت عمومی طور پر وزیراعظم سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ گو کہ پاکستان کی عسکری قیادت ملکی سیاست سے دور رہنے کے عزم کا اظہار بارہا کرچکی ہے، تاہم ملکی سیاست میں اس کا رول کسی نہ کسی صورت میں اہمیت کا حامل ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے یہاں چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری غیر معمولی مقام حاصل کر لیتی ہے۔ آج افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی توسیع شدہ مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ سبکدوش ہوگئے اور انہوں نے عسکری کمان نئے فوجی سربراہ جنرل سید عاصم منیر کے حوالے کردی ہے۔

دیکھا جائے تو کمانڈ کی یہ تبدیلی ایک معمول ہے، تاہم ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی تھی، خاص طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک میں سیاسی رہنماوں اور عسکری قیادت کے مابین نہ صرف گلے شکوے دیکھنے میں آئے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی نے باقاعدہ پریس کانفرنس کی۔ پاکستان تحریک انصاف کا یہ ماننا ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے اور ملک کی باگ دوڑ کو پی ڈی ایم کے حوالے کرنے کا منصوبہ امریکہ کا تھا اور اسے پاکستان کی عسکری سٹیبلشمنٹ، خاص طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ کی حمایت سے عملی جامہ پہنایا گیا۔ اسی بیانیے کے تناظر میں عمران خان واپس عوام میں گئے اور مقبولیت پائی، تاہم دوسری جانب عسکری قیادت کی طرف سے عمران خان کے اس الزام کی تردید کی گئی، تاہم اس کیساتھ ساتھ پی ٹی آئی سربراہ کے بیانیہ کا ذرائع ابلاغ کی سطح پر مقابلہ بھی کیا گیا۔

اس تمام تر صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین دوریاں بڑھتی گئیں، خاص طور پر عمران خان پر قاتلانہ حملہ کے بعد صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی۔ چونکہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت کا خاتمہ قریب آرہا تھا، ایسے میں توقع کی جا رہی تھی کہ نئے آنے والے سپاہ سالار حالات کو کنٹرول کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔ آج وہ دن بھی آگیا اور جنرل سید عاصم منیر اپنا دفتر سنبھال چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت سیاسی حالات کے نتاظر میں انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، ایک طرف عمران خان عوام کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر سامنے آرہے ہیں اور دوسری جانب افواج پاکستان کے کردار کو زیر سوال لانا یقینی طور پر ملک کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف کے دور حکومت میں افواج پاکستان کی کمانڈ سنبھالی، انہیں انتہائی قابل، پیشہ وارانہ امور کا ماہر اور ذہین سپاہ سالار کے طور پر جانا جاتا تھا، لیکن آج ان کی رخصتی کے موقع پر سوشل میڈیا پر چلنے والی میمز اور اظہار تشکر یقینی طور پر ایک محب وطن عام پاکستانی کیلئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہلخانہ کے اثاثوں کے حوالے سے لیک ہونے والی خبروں اور ایک منتخب حکومت کیخلاف رجیم چینج کے تحت کارروائی میں ملوث ہونے کے الزامات کیساتھ رخصتی، دنیا میں ایک خاص مقام رکھنے والی فوج کے سربراہ کیلئے یقینی طور پر باعث اطمینان نہ ہوگا۔ ماضی میں سیاسی قیادتوں کیساتھ ساتھ عسکری قیادتوں سے بھی ایسی غلطیاں ہوئی ہیں، جنہوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے مارشل قوم نہیں بھولی، ان کے بعد جنرل ضیاء الحق کے دور میں جس طرح ملک میں اسلام کے نام پر دہشتگردی کی بنیاد رکھی گئی، وہ ملکی تاریخ کا سیاہ باب ہے، جنرل مشرف نے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر طویل عرصہ حکومت کی اور پھر دہشتگردی کیخلاف امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے کے نتیجے میں ہزاروں پاکستانیوں کی شہادتیں، ایک انتہائی تکلیف دہ دور کی یاد دلاتا ہے۔

اسی طرح دہشتگردی کیخلاف تاریخی فوجی آپریشنز ’’ردالفساد‘‘ اور ’’ضرب عضب‘‘ کے بانی جنرل راحیل شریف کا مدت ملازمت کے بعد سعودیہ جا کر وہاں متنازعہ فوجی اتحاد کی کمانڈ سنبھالنا افسوسناک تھا۔ تاہم اب نئے آرمی چیف آچکے ہیں اور قوم کو ان سے بے پناہ امیدیں بھی وابستہ ہیں۔ جن میں سب سے اہم کام افواج پاکستان اور عوام کے مابین ایجاد ہونے والے فاصلے کو کم کرنا، عسکری قیادت پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے حقائق تک پہنچنا، سیاسی عدم استحکام کو کنٹرول کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا اور ادارے کو واپس اپنے فرض اولین پر لیکر آنا ہوسکتا ہے۔ گذشتہ لگ بھگ دس ماہ سے ملک میں جاری یہ محاذ آرائی یقیناً پاکستان دشمن ممالک و عناصر کیلئے باعث سکون و اطمینان ہوگی۔ سید گھرانے سے تعلق رکھنے والے حافظ قرآن آرمی چیف کیلئے ایسے حالات میں کمانڈ سنبھالنا کسی چیلنج سے کم نہ ہوگا، تاہم ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملک کیلئے بہت کچھ ایسا کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں ملکی تاریخ میں اعلیٰ الفاظ میں یاد کیا جاسکے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ادارہ کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے