تحریر: نرجس کاظمی
گزشتہ روز افضال احمد صاحب راہی ملک عدم ہو گئے۔ مگر ان کی وفات کیساتھ ہی جنرل ہوسپٹل لاہور سے افضال احمد صاحب کی کسمپرسی کی حالت میں لی گئی یہ تصاویر بھی خوب وائرل ہو رہی ہیں کوئی ہوسپٹل انتظامیہ کو اور کوئی حکومت کو کوس رہا ہے کہ پاکستان کا ایک لیجنڈ اپنے فنی کیرئیر کا ایک عہد گزارنے والا فنکار اپنی زندگی کے آخری لمحات میں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ انہیں ہوسپٹل میں ناکافی سہولیات اور ناقص طبی امداد کیساتھ ایک دوسرے جانکنی میں مبتلا مریض کا بیڈ میسر آیا۔
آپ کی سب باتیں ٹھیک ہیں۔ مگر کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ ہوسپٹل انتظامیہ نے ہوسپٹل میں جگہ نہ ہونے کا رونا رو کر مریض کو واپس نہیں لوٹایا بلکہ جگہ کی تنگی کے باعث دوسرے مریض کیساتھ ایک ہی بیڈ پر انہیں جگہ دی کہ اصل مقصد پورا ہو یعنی شاید طبی امداد سے ان کی جان بچانی ممکن ہو سکے۔
اگرچہ کچھ روز قبل ہی اس ہوسپٹل نے میرے معصوم نواسے کی تشویشناک حالت دیکھنے کے بعد کیس لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بچے کی حالت سیریس ہے اور ہم اتنے چھوٹے بچوں کا علاج ہی نہیں کرتے۔ جنرل ہوسپٹل کو چھوڑیں سروسز ، جناح ، سی ایم ایچ ،چلڈرن سمیت لاہور کے کسی بھی ہوسپٹل نے میرے ابان کا کیس لینے سے صاف انکار کر دیا پھر لاہور کے ٹاپ نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر آفاق گھمن سے رابطہ ہوا تو آفاق بھائی نے فوری طور پہ میو ہوسپٹل جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ میو ہوسپٹل ہر قسم کے کیسز لینے میں پہلے نمبر پہ ہے۔ اس طرح میرا ابان زندگی اور موت کی بازی جیت کر فاتح اپنے گھر روانہ ہوا۔
میرے ابان کو نمونیا کی شکایت ہو گئی جو میں پہلے بھی وضاحت کر چکی ہوں کہ یہ ایک قسم کا موت کا پروانہ ہے جو اللہ کی طرف سے جاری ہوتا ہے تاکہ جلا ہوا مریض زیادہ دیر تکالیف برداشت نہ کرے اور اس دنیا کی مصیبتوں اور اذیتوں سے نجات پا لے۔ مگر میرے مولا نے معجزہ دکھایا اور بچہ موت کے پروانے سے منہ موڑ کر زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ جس میں میو ہوسپٹل انتظامیہ کی خدمات قابل فخر ہیں۔ اس سلسلے میں ، میں میو ہوسپٹل کی بچہ ایمرجنسی سرجری ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پیر و مرشد پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف کی خصوصی شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے بچے پر خصوصی پروٹوکول لگاتے ہوئے اس کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اگرچہ وہ خود بھی مایوس تھے۔
اس پر میں تفصیل سے لکھوں گی ابھی بات ہو جائے ایک بیڈ پہ دو مریضوں کی تو جب میرے ابان کو نمونیا کی وجہ سے بچہ سرجری ایمرجنسی سے بچہ میڈیکل (PediatricMedical) کے ICU میں ایک رات کیلئے شفٹ کیا گیا تو ہمیں بھی ایکدوسرے بچے کے بیڈ پہ جگہ ملی جسے ہم نے ہنسی خوشی قبول کر لیا کہ ہمیں بچے کے علاج سے غرض تھی نہ کہ پرتعیش سہولیات کی ۔ وہ ساری رات میں نے بچے کے سرہانے جاگ کر گزاری اس کے جاگنے پر اسے کچھ کھلا پلا دیتی ماں کو میں نے خواتین کی ارامگاہ بھجوا دیا کہ تم سو جاو میں اس کا خیال رکھتی ہوں اور خود کبھی بیڈ پہ موجود دوسری خاتون کی طرح بیڈ کے ایک طرف لیٹ کر کچھ سستا لیتی اور کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتی۔ مگر میں مکمل مطمئن تھی۔ بچے کا ہر طرح سے خیال رکھا جا رہا تھا۔
تھوڑی ، تھوڑی دیر بعد ڈاکٹرز اور دیگر عملے کا ICU میں بار ، بار چکر لگانا بچوں کی حالت چیک کرنا ان کو دی جانے والی ادویات کا جائزہ لینا یا کسی مریض کے لواحقین کی طرف سے بلانے پر آنکھیں ملتے ہوئے آنا جو سخت ڈیوٹی کی وجہ سے ہمیشہ بند یا سوجی ہوئی ہوتیں ۔ نائٹ شفٹ میں ڈاکٹرز باہمی اتفاق سے ڈیوٹی دیتے ہیں۔ کچھ ڈاکٹرز تو اپنی ٹیبل پر سر رکھے اونگھ رہے ہوتے ہیں مگر آپ کے جگانے پر ہڑبڑا کر اٹھ جاتے ہیں۔ اور فورا مریض کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ مجھے ان کی حالت دیکھ کر ان پہ بہت ترس آتا۔ میرے خیال میں ICU کے عملے کو ہر 6 گھنٹے کے بعد بدل دیا جانا چاھئے ان کا کام زندگیاں بچانا ہے۔ انہیں مکمل آرام کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔مگر ہمارے ہاں جہاں فنڈز کی کمی کا رونا ہمیشہ رہے گا۔ وہاں ایسا ہونا کیسے ممکن ہے ۔ سلام ہے ہمارے تمام گورنمنٹ ہوسپٹلز کے ادنی سے لے کر اعلی عہدے دار کو جو ہماری طرف سے مرحمت کئے گئے بدنامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر بھی خندہ پیشانیوں سے ہماری خدمت کئے جا رہے ہیں۔
برائے مہربانی ہوسپٹلز کے عملے کو کوس کر ان کا مورال ڈاؤن کرنے کی بجائے اپنے ہینڈسم لیڈران کو گریبان سے پکڑیں جو چور بازاری کے باوجود بھی آپ کے ہیرو ہیں۔ جنہوں نے اس ملک کی شاہ رگ پہ پاؤں رکھ کے حکومت کرنے کا گر سیکھا ہوا ہے۔ مہم چلانی ہے تو ہوسپٹلز کو زیادہ سے زیادہ فنڈز دلوانے کی مہم چلائیں نہ کہ ان کو بدنام کرنے کی کہ ایک دن یہی صورتحال ہمارے ساتھ بھی پیش آ سکتی ہے۔