امریکی سیکرٹری دفاع لائڈ آسٹن نے 3 دسمبر کو ریگن ڈیفنس فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکا ایشیا پیسیفک ریجن میں زیادہ طاقتور پوزیشن لے گا۔ چین کو اس خطے میں وہ برتری حاصل کرنے سے روکے گا جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چین وہ ملک ہے جو ارادہ اور طاقت دونوں رکھتا ہے۔ وہ اپنے خطے اور عالمی نظام کو اپنی آمرانہ ترجیحات کے مطابق بدلنا چاہتا ہے۔ تو میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ ہم ہونے نہیں دیں گے‘۔
امریکی صرف باتیں ہی نہیں کر رہے، وہ چین کو مختلف طریقوں سے دبا بھی رہے ہیں۔ امریکی اپنی صنعتی سپلائی چین کی ری اسٹرکچرنگ کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ چینی کمپنیوں کو مقابلے سے باہر بھی کر رہے ہیں، ہواوے، ذیڈ ٹی ای اور دوسری بڑی چینی کمپنیوں سے خریداری بند کر رہے ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر چینی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنے پر بھی پابندیاں لگا رہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں ساری دنیا کی معیشت اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ اگر ہم امریکی سیکریٹری دفاع کے الفاظ سے ہی مدد لیں تو امریکا چین کی طاقت میں کمی پر توجہ دے رہا ہے تاکہ اگر وہ خطے اور عالمی نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش کرے بھی تو اس میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو۔
چینی میڈیا اس صورتحال پر بڑی دلچسپ سرخیاں لگا رہا ہے۔ گلوبل ٹائمز کی ہیڈ لائن ہے کہ ’امریکا سپلائی چین میں خلل ڈال رہا ہے اور یہ حرکت عالمی تعلقات کو ہلا رہی ہے‘۔
چین، ڈالر کی بڑھتی طاقت پر بھی شدید تنقید کر رہا ہے۔ گلوبل ٹائمز ہی کی ایک سرخی ہے کہ ڈالر کو بلیڈ کی طرح دنیا کو کاٹنے کے لیے استعمال نہ کرو۔ تگڑا ڈالر کمزور ملکوں کی معیشت بٹھا رہا ہے۔ مزے کی سرخی چائنہ ڈیلی کی بھی ہے کہ ڈالر مسکرا رہا ہے مگر دنیا ناخوش ہے۔ اسی نیوز رپورٹ میں سابق یو ایس ٹریژری سیکرٹری جان کنولی کا کاٹ دار جملہ بھی شامل کیا ہے کہ ’ڈالر ہماری کرنسی ہے اور تمہارا مسئلہ‘۔
ڈالر کے اسی مسئلے کو اب ذرا پاکستانی حالات میں سوچیں۔ ڈالر کے ریٹ نے ہمارا کیا حشر کر رکھا ہے کہ تجارتی خسارہ اور بجلی کی قیمتیں اب گھر گھر کی کہانی ہے۔ اس کو اب چینی سعودی اینگل سے بھی سوچیں جہاں ہم گاتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں کہ ہمارا کوئی نہیں ہے تیرے سوا۔ یہ حال ہمارا اکیلے نہیں ہے، ترکی، مصری، سری لنکن اور بہت سے ملک بھی ہمارے ساتھ سُر ملا کر گا رہے ہیں۔
چینی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکا میں جس طرح انٹرسٹ ریٹ بڑھایا جا رہا ہے اس سے ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے، یہ حرکت بھی ساری دنیا کی معیشت کو سست کر رہی ہے۔ مارکیٹ سکڑ رہی ہے اور طلب کم ہو رہی ہے۔ اس کم ہوتی طلب میں اگر چین زیرو کووڈ پالیسی چھوڑ کر پوری رفتار سے پیداوار شروع کردے تو مارکیٹ میں جو سیلاب آئے گا وہ ہر شے کی قیمت گرا دے گا۔ یوں چینی ایک نئی قسم کی مصیبت میں پھنس جائیں گے کہ اب گھاٹے کیسے پورے کریں؟
یہ ہوگیا چینی پس منظر۔ اسی کو دیکھیں اور اس سے ملا کر اوپیک کے تیل کی پیداوار پر کٹ لگانے کے فیصلے کو دیکھیں۔ جب مارکیٹ میں طلب ہی نہیں ہے تو تیل کی پیداوار بڑھانے سے قیمت لازمی کم ہو جائے گی۔ یہ سب دیکھتے ہوئے جب اوپیک نے پیداوار میں کمی کا اعلان کیا تو سعودیوں اور امریکیوں میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
سعودی امریکی تلخی کا تفصیلی ذکر دی ہل کی ایک رپورٹ میں موجود ہے۔ رپورٹ میں ایک جگہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان برائے نیشنل سیکیورٹی جان کربی کہتے ہیں کہ سعودی وزیرِ خارجہ بات گھما سکتے ہیں لیکن حقائق سادہ ہیں، ہمیں اوپیک کے ممبر ممالک نے کہا ہے کہ ہم پیداوار میں کمی پر خوش نہیں ہیں لیکن سعودیوں کی وجہ سے مجبور ہیں۔
امریکیوں کو پیداوار میں کمی کے علاوہ اس کے وقت پر بھی اعتراض تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ امریکا میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کی وجہ سے اس کٹ کا اعلان ایک مہینہ بعد کیا جاتا جبکہ سعودی مؤقف تھا کہ مہینہ بعد کرتے تو مارکیٹ جائزے کہہ رہے تھے کہ انہیں معاشی نقصان ہوتا۔
سعودیہ نے 2 باتیں ثابت کیں، ایک یہ کہ وہ امریکیوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور دوسرا اوپیک ملکوں کے حوالے سے اپنا قائدانہ کردار ثابت کیا۔
چینی صدر کے دورہ سعودی عرب کی خبر کے ساتھ ہی امریکا سے ایک خبر آئی کہ وہاں فیڈرل جج نے سعودی ولی عہد کے خلاف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس خارج کردیا ہے۔ اس ٹائمنگ کا مزہ ہم پاکستانی ہی لے سکتے ہیں۔ یعنی جج صاحب تب جوش میں آئے جب سعودی چینی گلے مل رہے۔ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں، الفت کی نئی منزل کو چلا بانہیں ڈال کر بانہوں میں، دل توڑنے والے دیکھ کر چل، وغیرہ وغیرہ۔
صدر شی کے دورے پر سی این این کی ہیڈ لائن سب کہہ رہی ہے کہ ’سعودی چینی توانائی سے سیکیورٹی تک ہر بات پر یکساں موقف رکھیں گے‘۔ اتفاق اس بات پر بھی ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی، یعنی عرب اور اسلامی دنیا کا لیڈر سنکیانگ کے حوالے سے چینی پالیسی سے غرض نہیں رکھے گا۔ یاد رہے کہ امریکی سنکیانگ سے امریکا کے لیے ہر قسم کی درآمد بند کرچکے ہیں۔ اس کی وجہ وہ چین کے اس مسلمان صوبے میں ہونے والی زیادتیوں کو قرار دیتے ہیں۔
چینی صدر کے اس دورے میں 30 ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے ہیں۔ میڈیا زیادہ تر اس دورے پر امریکا کے حوالے سے ہی بحث کرتا رہا۔ امریکی صدر بائڈن کے دورے سے بھی پہلے سعودی اس دورے کی تیاری کر رہے تھے۔ دورے کے دوران گرین انرجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹیشن، کلاؤڈ سروس، میڈیکل انڈسٹری، لاجسٹک، کنسٹرکشن اور ہاؤسنگ پر معاہدے ہوئے ہیں۔
گزشتہ چند سال میں چین سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے۔ سرمایہ کاری کے یہ سارے منصوبے کامیاب رہے ہیں جبکہ موازنہ اگر ایران سے کیا جائے تو وہاں اعلان بہت ہوئے ہیں اور کامیابی کچھ بھی نہیں۔
ان سب چیزوں کے باوجود چین سعودی تعلقات کی کچھ محدودات ہیں۔
امریکا اپنی خلیج پالیسی کو سعودی اینگل سے دیکھتا ہے۔ سال 2003ء سے 2021ء کے دوران امریکا نے سعودیوں کو 17 ارب 85 کروڑ ڈالر کا اسلحہ بیچا ہے جبکہ چین نے 24 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا۔ یہ سب آپ دی ڈپلومیٹ کی ایک رپورٹ میں پڑھ سکتے ہیں۔
اس دورے کے دوران چین کو توانائی کی فروخت چینی کرنسی میں کرنے کی بات سامنے آئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈالر کی طاقت کم کرکے سب کو اور خود کو ایک ریلیف فراہم کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔ چین اپنی ضرورت کا 18 فیصد تیل سعودیہ سے خریدتا ہے جبکہ سعودی اپنی پیداوار کا 25 فیصد تیل چین کو برآمد کرتے ہیں۔ یہ لین دین ڈالر سے آزاد کیا گیا تو ایک بڑی پیشرفت ہوگی جو ڈالر کی طاقت کو یقینی طور پر کم کرے گی۔
سعودی چینی تعلقات کو اب اپنے اینگل سے دیکھتے ہیں۔ ان دونوں کو جن حالات نے اکٹھا کیا ہے، ہم پاکستانی ان حالات کے متاثرین ہیں۔ یہ دونوں ملک ہمارے ریسکیو سنٹر بھی ہیں۔ امریکا یہ حالات پیدا کرکے اپنی پوزیشن مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ چینی سعودی اب اپنے لیے نئے امکانات دیکھ رہے ہیں، جو ان کو معاشی طور پر مستحکم کرسکیں۔ امریکی بھی معیشت کو بطور پریشر ٹول ہی استعمال کر رہے ہیں۔
ہم نے ان امکانات میں اپنا فائدہ ڈھونڈنا ہے۔ ہماری ضرورت سب کو ہے۔ ہم ہوتے کام بگاڑنے کے ماہر ہیں۔ اس وقت ملک پر الحمدللہ حکومت بھی کرپٹوں کی ہے۔ یہ قول ہمارے کپتان کا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ لوگ پیسے کمائی کے سیانے ہیں۔ تو دیکھتے ہیں کہ یہ کیا فائدے حاصل کر پاتے ہیں جبکہ اس وقت عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہم عوام سے زیادہ خود حکومتی اتحاد کی ہے کہ وہ لوگوں کو کوئی فائدہ دیں تاکہ الیکشن تک پہنچیں اور بعد میں بھی اقتدار باقی رہے۔