تحریر: سید رضا میر طاہر سردار حاج قاسم سلیمانی کے قتل اور شہادت کے لیے خصوصی قانونی اور بین الاقوامی فالو اپ کمیٹی کے سربراہ عباس علی کدخدائی نے کہا ہے کہ شہید سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کو عالمی سطح پر امریکہ کی جانب سے ایک بین الاقوامی خلاف ورزی کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ 3 جنوری 2020ء کو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم سے، امریکی ڈرون کے حملے کے ذریعے ایک مجرمانہ اور غیر قانونی اقدام میں، اسلامی انقلابی گارڈ کور کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کو بغداد کے ہوائی اڈے کے باہر قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کے لیے ٹرمپ کا عذر مجرمانہ یہ ہے کہ جنرل سلیمانی امریکیوں اور ان کے اڈوں کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کے مقصد سے عراق میں داخل ہوئے تھے۔
ٹرمپ کا مجرمانہ بہانہ یہ بھی تھا کہ امریکی فضائی حملہ ایک احتیاطی اقدام تھا، جالانکہ اعلیٰ امریکی حکام نے اس معاملے کی تردید کی تھی۔ درحقیقت متعدد شواہد اور اعلیٰ امریکی حکام کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اس معاملے پر مہینوں پہلے فیصلہ کرچکا تھا اور اس مجرمانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صرف مناسب وقت کا انتظار کر رہا تھا۔ امریکی این بی سی نیوز چینل نے 13 جنوری 2020ء کو رپورٹ کیا تھا کہ ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کے قتل کا مشروط حکم جون 2019ء میں یعنی اس مجرمانہ کارروائی سے 7 ماہ قبل جاری کیا تھا۔ ٹرمپ کے عسکری اور سلامتی کے مشیروں کے نقطہ نظر سے بغداد میں سردار سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی بیک وقت موجودگی (وہ بھی ان دو اہم ایرانی اور عراقی کمانڈروں کی موجودگی جنہوں نے نہ صرف داعش کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، بلکہ مغربی ایشیا میں امریکہ کے اہداف کے حصول میں سنگین رکاوٹیں بھی پیدا کی تھیں) ایک ایسا موقع تھا، جسے ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ یوں امریکیوں نے ان پر بزدلانہ حملہ کرکے ایک بہت بڑا جرم انجام دیا۔
شہید سلیمانی کے قتل کا حکم دینے کے لیے ٹرمپ کے عذر کے بارے میں، کدخدائی کہتے ہیں: اس مجرمانہ فعل کو انجام دینے کے لیے جو جواز امریکیوں کے پاس ہے، ان میں سے کوئی بھی منظور نہیں کیا گیا اور آج یہ معاملہ بین الاقوامی فورمز میں ایک بین الاقوامی دستاویز کے طور پر درج ہے، جس کا ارتکاب خود امریکیوں نے کیا ہے۔ اس مجرمانہ فعل کے ساتھ امریکہ نے ایک بڑی بین الاقوامی خلاف ورزی کی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے "Agnes Callamard” نے اس حوالے سے لکھا ہے: "جنرل سلیمانی کے خلاف اپنے ڈرون حملے کو جواز فراہم کرنے کے لیے امریکہ کے استدلال میں کوئی وزن نہیں، کیونکہ جس خاص خطرے کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا ہے، اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔” ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ نے ایک ایسا اقدام کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں، انجام دیکر مکمل طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کسی طرح کی اعلانیہ جنگ نہیں تھی۔ بغیر اعلان جنگ کے ایرانی مسلح افواج کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو اپنی دہشت گردانہ کارروائی کا نشانہ بنانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
حاج قاسم عراق کے سرکاری مہمان کی حیثیت سے ایک بین الاقوامی شخصیت کے طور پر عراق میں داخل ہوئے تھے اور ان کے مقام و مرتبہ کا احترام اور تحفظ ضروری تھا۔ امریکی حکام ان کی عزت اور مقام کا احترام کرنے کے پابند تھے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے "Agnes Callamard” نے بھی اس مسئلے کی تصدیق کی اور امریکی اقدام کے غیر قانونی ہونے پر تاکید کی ہے۔ Agnes Callamard” نے اس کے بارے میں لکھا: "امریکہ کے ذریعے عراق میں جنرل سلیمانی کا ٹارگٹڈ قتل اعلانیہ تنازعہ کے فریم ورک سے باہر تھا۔ یہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ ایک سرکاری اہلکار پر حملے کا جواز ناقابل قبول ہے۔” جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے قتل میں امریکہ کے مجرمانہ اقدام کے غیر قانونی ہونے پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کالامار کے واضح موقف کے ساتھ، اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں میں سے ایک ہے اور امریکہ کی جابرانہ پالیسیوں میں ہمیشہ قوانین اور اصولوں کو نظر انداز کیا جانا ہے، لہذا اس تناظر میں بین الاقوامی عدالتوں مین ایران کی پٹیشن کو ہینڈل کرنا اور اس قتل کو عالمی عدالتوں میں ہر صورت میں قابل سماعت ہونا چاہیئے۔