(تحریر: علی احمدی)
2 جنوری 2016ء کے دن آل سعود رژیم نے کئی سال تک آیت اللہ شیخ باقر النمر کو قید اور ٹارچر کرنے کے بعد آخرکار شہید کر دیا۔ یوں سعودی عرب کی تاریخ میں یہ بدنما داغ ہمیشہ کیلئے باقی رہ گیا۔ شیخ باقر النمر پہلی بار 2006ء میں گرفتار ہوئے۔ انہیں بحرین میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت سے واپسی پر گرفتار کیا گیا تھا اور گرفتاری کی وجہ ان کی سعودی حکومت سے قبرستان بقیع کی تعمیر نو کرنے اور شیعہ مذہب کو سرکاری طور پر قبول کرنے کی درخواست ظاہر کی گئی تھی۔ اس کے بعد 2008ء اور 2009ء میں بھی انہیں آل سعود رژیم کو تنقید کا نشانہ بنانے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ 2012ء میں جب شیخ باقر النمر نے ایک اعلی سطحی سعودی حکومتی عہدیدار کو تنقید کا نشانہ بنایا تو سکیورٹی فورسز نے ان کے گھر پر حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا اور گرفتار بھی کر لیا۔
اس کے بعد وہ 2 جنوری 2016ء تک آل سعود کی قید میں رہے اور آخرکار ان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ شیخ باقر النمر کی زندگی سیاسی جدوجہد سے بھرپور تھی۔ انہوں نے آل سعود رژیم کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف تحریک چلائی اور خاص طور پر دو علاقوں الاحساء اور القطیف میں سرگرم عمل رہے۔ وہ واضح طور پر سلطنتی نظام حکومت اور آل سعود رژیم کی برطانیہ اور امریکہ کی غیر مشروط اطاعت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ وہ آل سعود، آل خلیفہ اور دیگر خلیجی رژیموں کو امریکہ کی کٹھ پتلیاں قرار دیتے اور کہتے تھے: "تمام خلیجی ریاستیں امریکہ کی چھتری تلے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ امریکی نیوی کی ففتھ ڈویژن بحرین اور دیگر عرب ممالک کے تیل کے ذخائر کی لوٹ مار کرنے کیلئے خطے میں موجود ہے۔” شیخ باقر النمر کھلم کھلا آل سعود رژیم کی کرپشن، آمریت اور ڈکٹیٹرشپ پر بھی اعتراض کرتے رہتے تھے۔
آیت اللہ باقر النمر سعودی حکومت کی جانب سے شہریوں خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کی تحقیر پر شدید احتجاج کرتے تھے۔ ان کی نظر میں آل سعود رژیم شیعہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی تھی اور انہیں تمام شہری حقوق سے محروم کر رکھا تھا۔ شیخ باقر النمر نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ وہ سعودی عرب کے شیعہ مسلمانوں کے احترام اور حقوق کی حمایت کرتے رہیں گے۔ شیخ باقر النمر ہمیشہ اپنی تقریروں میں سیاسی تبدیلیاں انجام پانے، شہریوں کی سماجی آزادی بحال ہونے، مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام اور حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک ختم کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔ جب سعودی حکومت نے انہیں شہید کیا تو سعودی عرب کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک جیسے ایران، عراق، پاکستان، بحرین، یمن، لبنان وغیرہ میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج سامنے آیا۔
دنیا کی متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا آل سعود رژیم کی جانب سے شیخ باقر النمر کو سزائے موت سنائے جانے کی مذمت کی تھی اور سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس پر عملدرآمد نہ کرے۔ جب سعودی حکومت نے انہیں شہید کر دیا تو 12 عرب ممالک سے 114 تنظیموں نے اس کی شدید مذمت کی۔ آل سعود رژیم کے اس اقدام نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کو بھی شدید کشیدہ کر دیا تھا۔ سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کی زیادہ آبادی جنوبی علاقوں جیسے القطیف اور الاحساء میں مقیم ہے۔ آل سعود ہمیشہ سے انہیں اپنی حکومت کیلئے خطرہ تصور کرتی آئی ہے۔ سعودی تاریخ میں آل سعود رژیم کے خلاف احتجاجی تحریکوں کی اکثریت بھی انہی علاقوں میں جنم لیتی رہی ہے۔ سعودی حکومت شدید مذہبی تعصب کا شکار ہے اور شیعہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھتی ہے۔
گذشتہ چند سالوں کے دوران آل سعود رژیم نے اپنے شہریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی اختیار کر رکھی ہے۔ یوں سعودی حکومت اپنے ہی شہریوں میں سے روشن خیال، قانون دان اور سیاسی طور پر سرگرم شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کی ایک اور واضح مثال جمال خاشگی کا ہولناک قتل ہے۔ وہ سعودی شہری تھے اور موجودہ حکومت کے شدید مخالف ہونے کے ناطے جلاوطنی کی حالت میں ترکی میں رہتے تھے۔ "ریاستی دہشت گردی” کا مطلب ایک حکومت کی جانب سے خاص سیاسی اہداف کے حصول کیلئے اپنے ہی شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کو کہتے ہیں۔ معاشرے میں دہشت پھیلانے کا ایک معروف طریقہ اجتماعی سزائے موت دینا ہے۔ سعودی عرب میں ہر سال اس اقدام کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ 2016ء میں بھی شیخ باقر النمر کے ہمراہ 46 دیگر افراد کے سر قلم کئے گئے تھے۔
اپریل 2019ء میں بھی آل سعود رژیم نے 37 شیعہ شہریوں کو ایک ساتھ قتل کر دیا تھا۔ ان پر 2011ء کے پرامن مظاہروں میں شرکت کا الزام تھا۔ ان میں سے اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ ماضی میں بھی سعودی حکومت نے 1980ء میں ایک ہی دن 63 شہریوں کو قتل کر دیا تھا۔ ان افراد پر مسجد الحرام پر زبردستی قبضے کا الزام لگایا گیا تھا۔ حال ہی میں "سند” نامی انسانی حقوق کے ادارے نے اعلان کیا ہے کہ آل سعود رژیم کی فوجی عدالتوں نے 60 شہریوں کو سزائے موت کا حکم سنا رکھا ہے۔ ان افراد کو سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ان افراد کو دو ماہ قبل ریاض کے قریب واقع "الحائر” جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف سمیت بعض میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ آل سعود رژیم نئے سال کی چھٹیوں میں ان افراد کے سر قلم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز