(اعظم خان)
سعودی عرب کے وزیر خزانہ کے مطابق آئندہ بغیر کسی شرط کے براہِ راست گرانٹس اور ڈیپازٹس دینے کی پالیسی کو بدل کر اب دوست ممالک میں اصلاحات پر زور دیا جائے گا
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب سے فوری امداد کی توقع کر رہا ہے، سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے بُدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اتحادی ممالک کو دی جانے والی مالی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جا رہا ہے، یعنی بغیر کسی شرط کے براہِ راست گرانٹس اور ڈپازٹس کی پالیسی کو بدل کر اب دوست ممالک میں معاشی اصلاحات پر زور دیا جائے گا۔
ایسے میں سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا ان دوست ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے اور اس اعلان سے پاکستان کیسے متاثر ہو سکتا ہے؟ ماہرین کے مطابق نئی سعودی پالیسی سے پاکستان اور افریقہ سمیت دنیا کے مختلف خطے اور ممالک متاثر ہوں گے۔
ایک جانب جہاں معاشی ماہرین اس بیان کو پاکستان کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘ قرار دے رہے ہیں وہیں پاکستانی حکام، جن کے مطابق سعودی عرب کے اعلان کا جائزہ لیا جا رہا ہے، نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نئی شرائط کا اطلاق پہلے سے کیے جانے والے وعدوں پر نہیں ہو گا۔
’ہم اپنے لوگوں پر ٹیکس لگا رہے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی امید کرتے ہیں‘
اس سے قبل کہ ہم سعودی عرب کے وزیرخزانہ کے بیان پر معاشی ماہرین اور حکومتی عہدیداروں سے تفصیل سے بات کریں، پہلے یہ جانتے ہیں کہ سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے اپنے بیان میں کہا کیا ہے؟
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کی تقریب کے دوران محمد الجدعان نے کہا کہ سعودی عرب خطے کے ممالک میں معاشی اصلاحات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم براہ راست گرانٹس اور ڈیپازٹس دیتے ہیں جن میں کوئی شرائط عائد نہیں کی جاتیں اور اب ہم اسے تبدیل کر رہے ہیں۔‘
’ہم کئی اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ یہ بتا سکیں کہ ہم اصلاحات دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے لوگوں پر ٹیکس لگا رہے ہیں اور یہی امید کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ایسا ہی کریں۔ ہم مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ اپنے طور پر کام کریں۔‘
محمد الجدعان نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ امریکی ڈالر کے علاوہ دوسری کرنسیوں میں تجارت کرنے کے لیے بات چیت کو تیار ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعودی وزیر برائے معیشت فیصل ال ابراہیم نے ڈیووس میں بتایا کہ وہ تیل کی برآمد پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں، پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے ایک دن بعد، سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی حکام کو تاکید کی تھی کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری 10 ارب ڈالر اور سٹیٹ بینک آف پاکستان میں سعودی ڈیپازٹس کی رقم پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے پر غور کریں۔
’امید ہے سعودی عرب کی نئی شرائط کا اطلاق پہلے سے کیے گئے وعدوں پر نہیں ہو گا‘
پاکستان کے سیکریٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ سعودی عرب کی نئی شرائط کا اطلاق پہلے سے کیے گئے وعدوں پر نہیں ہو گا بلکہ اس پالیسی بیان کا اطلاق مستقبل میں کیا جائے گا۔
ان کے مطابق ’سعودی عرب تو پہلے ہی یہ عام اعلان کر چکا ہے کہ وہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو تین ارب سے بڑھا کر پانچ ارب تک کرے گا اور مزید دس ارب کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔‘
سیکریٹری خزانہ کے مطابق گذشتہ ہفتے سعودی فنڈز ایجنسی کے عہدیدار پاکستان آئے اور ’ان سے تفصیل سے بات چیت ہوئی ہے اور انھوں نے اس طرح کی کسی نئی شرط کا ذکر نہیں کیا ہے۔‘
ان کے مطابق امید ہے کہ پاکستان کو جنوری میں سعودی عرب سے دو ارب ڈالر کے ڈیپازٹ مل جائیں گے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس اعلان کے بعد ’آئی ایم ایف کے بعد اب سعودی عرب کی طرف سے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔‘
سابق وزیر خزانہ کے مطابق ’آئی ایم ایف کی شرائط تو ماضی میں بھی سخت تھیں مگر سعودی عرب کا رویہ ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا۔‘
’اب یہ تشویش کی بات ہے کہ سعودی عرب جیسا اتحادی ملک بھی آئی ایم ایف طرز پر مشروط مدد کی بات کر رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہ ہمارے لیے بہت نازک صورتحال ہے کیونکہ یہ پالیسی ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب ہم سعودی عرب سے یہ امید کر رہے تھے کہ وہ ہماری فوری مدد کرے۔‘
سابق وزیرخزانہ کے مطابق ’اب صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ پہلے معاشی اصلاحات کریں۔‘
شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ’دوست ممالک نے اپنی امداد کو آئی ایم ایف کے ساتھ لنک کر دیا ہے جو ہمارے لیے ایک ایکسٹریم پوزیشن ہے۔‘
کیا نئی پالیسی سعودی عرب کے عالمی سطح پر رسوخ پر اثرانداز ہو سکتی ہے؟
ہیڈ آف ریسرچ پاکستان کویت انویسٹمنٹ کمپنی سمیع اللہ طارق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سعودی عرب کی سوچ میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اب وہ بغیر اصلاحات کے کسی ملک کی مالی مدد کو پیسے کا ضیاع سمجھتا ہے۔‘
ان کے مطابق صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے مصر کو بھی 35 سے 40 ارب ڈالر کے ڈیپازٹ دیے مگر دوسری جانب قاہرہ کے مسائل جوں کے توں ہی ہیں۔
ان کے خیال میں ’ریاض اب یہ سمجھتا ہے کہ بغیر اصلاحات کے مدد دینا صرف فٹبال کو دھکہ دینے والی بات ہی ہے۔‘
تاہم وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کے عالمی افق پر اثر و رسوخ میں اس نئی پالیسی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ’اب عالمی مالیاتی نظام اسی طرح کام کر رہا ہے۔‘
’صرف سعودی عرب نہیں سب دوست ممالک یہی کہتے ہیں کہ ہم مشکل فیصلے کریں‘
معاشی ماہرین کے مطابق دنیا میں اب بیشتر ممالک یہی پالیسی اختیار کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ اپنے عوام پر خرچ کیا جائے جن سے وہ ٹیکس لیتے ہیں۔
ان کے مطابق اب پاکستان عالمی مالیاتی نظام کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ان کے مطابق اس نظام کی پہلی شرط یہی ہوتی ہے کہ ’پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرو اور ہم پھر آگے بڑھ کر مدد کریں گے۔‘
ان ماہرین کے مطابق اب ’ایزی منی‘ والا دور گزر چکا ہے اور اب ہر ملک کو خود پیسے کی ضرورت ہے اور اب وہ براہ راست پیسہ دینے اور ڈیپازٹ کے بجائے سرمایہ کاری سمیت دیگر آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ سعودی عرب کی طرف سے کیا جانے والا یہ اعلان غیر متوقع نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سعودی عرب کے مؤقف میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
ان کے مطابق اب سب دوست ممالک ہمیں یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم اصلاحات کریں۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی عہدیدار کے مطابق سعودی عرب اور چین سمیت دوست ممالک یہی چاہتے ہیں کہ ہم مشکل فیصلے کریں تا کہ وہ مدد کر سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط معاشی حالات کو دیکھ کر ہی رکھی جاتی ہیں تاکہ کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑنے ہونے کے قابل بن جائے۔
ان کے مطابق سعودی عرب تو اتحادی ملک ہے مگر ایسے ممالک جو صرف کاروباری نکتہ نظر سے سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں وہ بھی یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کوئی ملک آئی ایم ایف کے کس طرف کھڑا ہے یعنی اب عالمی مالیاتی ادارے کا اطمینان دیگر مدد کرنے والے ممالک کے اعتماد کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر نجیب خاقان کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اپنے ملک کی ایک نئی سمت بتائی ہے کہ اب ہم سرمایہ کاری جیسی فنڈنگ مہیا کریں گے۔
ان کے مطابق ’ہمارے لیے پہلے سے ہی سعودی عرب کے ساتھ کچھ منصوبے پائپ لائن میں ہیں اور پاکستان کو ان منصوبوں پر پیش رفت یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹر نجیب کے مطابق ’دوسرے مالیاتی اداروں کے ساتھ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اب دنیا کو اصلاحات پر پیش رفت بھی دکھانا ہو گی۔‘
’اب ممالک کے پاس دوسرے ملکوں کی مدد کے لیے زیادہ پیسے نہیں ہیں اور وہ یہ پیسہ اپنے شہریوں پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔‘
پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے سمیع اللہ طارق کے مطابق جب کوئی ملک بار بار مدد حاصل کرنے کے باوجود اپنے پاؤں پر نہیں کھڑا ہو پاتا تو یہ بنیادی طور پر پالیسی کی ناکامی ہوتی ہے۔
ایسے میں ان کے خیال میں بھی سعودی عرب کی سوچ صحیح ہے کہ اگر آئی ایم ایف جیسا ایک ادارہ معاشی استحکام کے لیے کام کرتا ہے تو پھر معاشی اصلاحات کے ذریعے مدد کا فائدہ بھی ہو گا۔
ان کے خیال میں اب جب پاکستان آئی ایم ایف کے پاس چلا جائے گا تو پھر دیگر ذرائع سے مدد بھی حاصل ہونا شروع ہو جائے گی۔
سٹیٹ بینک کی عہدیدار نے بتایا کہ شرائط اور مشکلات کے باوجود سعودی عرب اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے ضرورت مند ممالک کی کسی نہ کسی طور پر مدد کر رہا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب عالمی سطح پر پھر بھی ایک مسلمہ کردار رہے گا۔
’ہم آئی ایم ایف سے ڈیل کے بھی قریب ہیں‘
پاکستان کے سیکریٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ کے مطابق حکومت کی طرف سے ہمیں آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے کے بارے میں اجازت مل چکی ہے اور آئی ایم ایف سے ہم نے کہہ دیا ہے کہ مذاکرات شروع کریں۔
تاہم ان کے مطابق حکومت نے اس دوران پہلے سے ہی آئی ایم ایف کی کچھ شرائط پر کام بھی کیا ہے اور اس سمت میں کچھ اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔
حامد یعقوب کے مطابق منگل اور بدھ کو وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت اہم اجلاسوں میں کچھ اہم فیصلے کیے گئے ہیں اور اب ’ہم آئی ایم ایف سے ڈیل کے قریب ہیں۔‘ ان کے مطابق ’اس ڈیل کی ایک سیاسی قیمت بھی چکانی ہو گی مگر اب حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانا ہے۔‘
سیکریٹری خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں تمام شرائط پر عمل کرنے کی صورت میں بہت زیادہ افراط زر اور مہنگائی سے متعلق بات کی جائے گی کیونکہ مشن کا مقصد غربت پر قابو پانا بھی ہے جبکہ شرائط پر من و عن عمل کرنے سے بڑی تعداد خط غربت سے نیچے چلی جائے گی۔
انھیں امید ہے کہ آئی ایم ایف اس حوالے سے پاکستان کے خدشات پر غور کر کے ڈیل فائنل کر دے گا۔
’سخت شرائط کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ پروگرام جلد بحال ہو جائے‘
وزیر مملکت عائشہ غوث پاشاہ نے کہا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں آئی ایم ایف پروگرام جلد بحال ہو جائے اور اس کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی چل رہے ہیں، ایکسچینج آف نوٹس ہو رہا ہے اور ورچوئل بات چیت بھی چل رہی ہے۔‘
وزیر مملکت کے مطابق آئی ایم ایف کے معاملے پر سٹیٹ بینک کے ساتھ اجلاس بھی ہوا، ’اب چاہتے ہیں یہ معاملہ تیزی سے آگے بڑھے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آئی ایم ایف کے بہت سارے تحفظات دور کیے ہیں، ہم پروگرام کی بحالی چاہتے ہیں، حکومت کی خواہش ہے عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور کوشش ہے کہ امیر لوگوں پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے لیکن آئی ایم ایف ہمیں دوسری طرف لے جانا چاہتا ہے، پروگرام میں جانے کے لیے آئی ایم ایف کی تمام باتیں ماننا پڑیں تو مان لیں گے، سخت فیصلے بھی لینا پڑے تو لیں گے۔‘
وزیر مملکت نے بدھ کو پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کو بھی بتایا کہ پریشان حال ضرور ہیں مگر ہمارے پاس پلان موجود ہیں، ہم آئی ایم ایف کو انگیج کررہے ہیں، وہ مانیٹرنگ ادارے ہیں جہاں سے ڈالرز آئیں گے۔
معاشی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مت سوچیں کہ حکومت کو کچھ پتا نہیں ہے، حکومت کو سب پتا ہے، یہ نہ کہیں ہم نے کرائسز مینجمنٹ نہیں کی۔‘
سابق وزیرخزانہ شوکت ترین کے مطابق سعودی عرب کا اعلان پاکستان کے لیے ’خطرے‘ کی بات ہے
’سخت شرائط کو قبول نہ کیا جائے‘
سابق وزیرخزانہ شوکت ترین کے مطابق ’اس وقت سارا زور اس بات پر ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام شروع کر دے۔‘
شوکت ترین کے خیال میں ’حکومت اب آئی ایم ایف سے معاہدہ تو کر لے گی۔‘ ان کے مطابق بدھ کو امریکہ نے بھی پاکستان کی معاشی مشکلات سے متعلق بیان دیا ہے۔
ان کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط مان کر مہنگائی میں اضافہ کیا ہے۔
انھوں نے حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ’کسی صورت آئی ایم ایف کی انتہائی سخت شرائط کو قبول نہ کیا جائے ورنہ ملک میں غربت میں اضافہ ہو جائے گا‘۔ تاہم انھوں نے کہا کہ وہ اس حق میں ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنا چاہیے۔
ان کے خیال میں تکنیکی ڈیفالٹ کے باوجود ابھی پاکستان کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ حقیقی ڈیفالٹ کے ابھی فوری امکانات نہیں ہیں۔ ان کے مطابق جب تحریک انصاف کے دور میں وہ وزیرخزانہ تھے تو انھوں نے آئی ایم ایف سے سات آٹھ مہینے تک ڈیل کو روکے رکھا۔
شوکت ترین اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں تاخیر کی سیاسی وجوہات تھیں۔
ان کے مطابق ’اب نئی حکومت نے نو ماہ میں جو کر دیا ہے اس سے حالات خراب ہوئے ہیں ورنہ گذشتہ دور میں تو اہداف اور اعشاریے اتنے خراب نہیں تھے۔‘
سابق وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے نااہلی دکھائی ہے اور روپے کو گرنے دیا ہے، جس سے مجموعی پیداوار متاثر ہوئی اور ترسیلات زر کم ہوئیں۔‘بشکریہ بی بی سی
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔