امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ مکمل مقابلہ کریں گے لیکن تنازع نہیں چاہتے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر جو بائیڈن نے امریکی ٹیلی ویژن پی بی ایس کو دیے گئے انٹرویو میں مبینہ جاسوس غبارے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے دو عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے سے قبل چینی صدر شی جن پنگ سے بات چیت کے دوران انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ وہ تنازع نہیں چاہتے۔
خیال رہے کہ سنیچر کو امریکہ نے ریاست کیرولائنا کے ساحل کے قریب مشتبہ چینی جاسوس غبارے کو مار گرایا تھا جس کے بعد چین نے شدید ردعمل دیتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ سیکریٹری انٹونی بلنکن نے چینی غبارے کے عالمی اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن اور امریکی سفارت خانوں نے متعدد ممالک کے ساتھ غبارے سے متعلق معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔ ’
ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ اس وسیع پروگرام کے ذریعے نہ صرف امریکہ کو نشانہ بنایا گیا بلکہ پانچ براعظموں کے ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔‘ چینی غبارے کو مار گرانے کے احکامات سے قبل صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ جدید ترین سامان سے لیس ایک بڑا غبارہ براعظم امریکہ میں داخل ہوا ہے۔ تاہم چین کا اصرار ہے کہ یہ غبارہ موسم پر تحقیق کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا لیکن امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے مطابق اس کے ذریعے ’ہائی ٹیک‘ جاسوسی کا آپریشن کیا گیا ہے۔
یہ غبارہ طیارے سے بھی اونچی بلندی پر پرواز کر رہا تھا اور اس دوران امریکی فوج کی انتہائی حساس تنصیب کے اوپر سے بھی گزرا تھا۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل ہینز سٹولٹن برگ نے جمعرات کو دورہ امریکہ کے دوران انٹونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سرحد میں چینی غبارے کی موجودگی سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے چین جدید عسکری صلاحیتوں کے حصول پر توجہ دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’یورپ میں بھی چین کی جانب سے انٹیلی جنس کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ اور سائبر کا استعمال کرتے ہیں اور اب امریکہ کے کیس میں تو غبارہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
اس لیے ہمیں چوکس رہنا چاہیے۔‘ نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے چین کے تائیوان پر دباؤ کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ چین نے یوکرین جنگ سے بھی سبق حاصل کیا ہے اور جو کچھ یورپ میں ہو رہا ہے وہ ایشیا میں بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے امریکی عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین ’نگرانی کا پروگرام‘ جنوبی جزیرے ہینان سے چلاتا ہے اور حریف ممالک جاپان، انڈیا اور تائیوان کی عسکری تنصیبات پر نظر رکھنے کے لیے غباروں کا استعمال کرتا ہے۔