(تحریر: حسن عقیقی سلماسی)
ایران اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات نئی تبدیلی کی راہ پر گامزن ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے دورہ چین کے ساتھ ہی بیجنگ میں دونوں ممالک کے تاجروں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ وزارت خارجہ کے اقتصادی سفارت کاری کے نائب وزیر مہدی صفری نے بیجنگ میں ایرانی اور چینی تاجروں کے مشترکہ اجلاس میں کہا ہے کہ ایران کے صدر کا دورہ چین دونوں ممالک کے درمیان منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد اور تجارتی و اقتصادی تعاون میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کی سرکاری دعوت پر ایک اعلیٰ سیاسی اور اقتصادی وفد کے ہمراہ بیجنگ کے دورہ پر ہیں۔ اس دورے کا ایک مقصد ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ اسٹریٹجک دستاویز پر عمل درآمد کو سرعت دینا ہے۔
گذشتہ برسوں میں ایران اور چین نے سیاسی، اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے اور مارچ 2021ء میں 25 سالہ اسٹریٹجک دستاویز پر دستخط کو اس عمل کی تکمیل کی جانب ایک اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔ یہ دستاویز دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں طویل مدتی تعاون کی راہ کو واضح کر رہی ہے۔ چین، اجناس پر مبنی دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر گذشتہ برسوں میں ایران کے ساتھ تجارتی میدان میں مسلسل سرفہرست رہا ہے اور پابندیوں کے عروج پر بھی چین ایران کا اہم تجارتی پارٹنر رہا ہے اور اس کی وجہ سے فریقین کی صلاحیتیں اور سیاسی وابستگی، دونوں ممالک کے درمیان زیادہ تجارت کا باعث بنی ہیں۔
چین نے شمسی سال (1401) کے پہلے دس مہینوں میں 25.3 بلین ڈالر مالیت کی 29.2 ملین ٹن اشیا کی کل تجارت کے ساتھ، ایران کے ساتھ سب سے زیادہ تجارت کی ہے۔ اس کے علاوہ، ایران کے 143 برآمدی مقامات میں سے، چین نے اس عرصے کے دوران 12 ارب 806 ملین ڈالر کی خریداری کے ساتھ سب سے زیادہ سامان ایران سے خریدا ہے، جو گذشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 10 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔ چین سے ایران کی درآمدات بھی 12 ارب 698 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جس میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کثیرالجہتی (ملٹی پولر) کے میدان میں ایران کی پالیسیاں، مشرق کی طرف توجہ، شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی رکنیت، ایشیائی ممالک کے ساتھ ایران کا بین الاقوامی تعاون، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں نئی شاہراہ ریشم کو فعال کرنے کے لیے تجارت اور چین کے ساتھ تاریخی تعلقات وہ عوامل ہیں، جس نے چین کے ساتھ ایران کے تجارتی اور اقتصادی روابط میں اضافہ کیا ہے۔
چین کی معیشت کے حجم اور ایران اور اس ملک کے درمیان اچھے تعلقات کو دیکھتے ہوئے امید کی جاتی ہے کہ ایران میں چینی سرمایہ کاری کی مقدار بڑھے گی۔ پچھلے سال، چینیوں نے ایران میں تقریباً 200 ملین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی، جو روس، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ دونوں ممالک کی اسٹریٹجک دستاویز پر عمل درآمد کے تناظر میں ایران اور چین نے اب تک مشترکہ سرمایہ کاری، تیل و گیس، مالیاتی اور بینکنگ تعاملات کے علاوہ راہداری اور تجارت کے شعبوں میں مفاہمت کی متعدد یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی اور جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کی ملاقات میں ان سمحھوتوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔ ایران کی منفرد جغرافیائی صلاحیتیں اور اس کی اسٹریٹیجک پوزیشن مشرق-مغرب اور شمال-جنوبی راہداریوں میں گولڈن گزرگاہ کے طور پر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نہایت اہم ہیں اور یہ ایک گیم چینجر منصوبہ ہے، جس پر چینی عمل پیرا ہیں۔
ایران دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو بیک وقت کئی خطوں میں رابط کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایران خلیج فارس کے ممالک، مغربی ایشیاء، وسطی ایشیاء، قفقاز اور برصغیر پاک و ہند کے علاقوں کو متصل کرتا ہے اور جسے براعظم ایشیاء، یورپ اور افریقہ کے درمیان ایک پل کے طور پر ایک خاص ٹرانزٹ پوزیشن سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایران دنیا میں تیل اور گیس کے وسائل کا سب سے بڑا مالک ہے اور چینی معیشت کو توانائی اور تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توانائی، ٹرانزٹ، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں وسیع صلاحیتوں کو ایران اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات کو گہرا کرنے اور ترقی دینے کے لیے انتہائی موزوں میدان قرار دیا جا سکتا ہے، جس میں دونوں ممالک کے مفادات مضمر ہیں۔
چین کی لانژو یونیورسٹی کے ڈائریکٹرز میں سے ایک ژو یونگ بیاؤ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے دورہ چین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے "اس دورے کو چین اور ایران کے تعلقات میں بہت اہم بہتری قرار دیا جا سکتا ہے۔ one belt and road initiative ون بیلٹ اینڈ روڈ انیشیایٹو نیز شنگھائی تعاون تنظیم چین اور ایران کے درمیان تعاون کے لیے مزید مواقع فراہم کرسکتی ہے اور یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین اور ایران کے صدور کی ملاقات کے بعد چین اور ایران کے تعلقات ایک نئے اور اعلیٰ سطحی مرحلے میں داخل ہوں گے۔” اپریل 2021ء کے اوائل میں چین کی جانب سے دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ 2022ء سے، تائیوان کے معاملے میں امریکی مداخلت کی شدت کی بدولت دونوں ممالک کے درمیان اختلافات نے مزید شدت اختیار کرلی ہے۔ مشرق میں نیٹو کی توسیع اور یوکرین میں جنگ نے امریکی نقطہ نظر کے بارے میں چین کے شکوک و شبہات کو بڑھا دیا ہے۔
بیجنگ کئی میدانوں میں، خاص طور پر اقتصادی، فوجی، سائبر اور تکنیکی لحاظ سے، امریکہ کو تیزی سے چیلنج کر رہا ہے اور طاقت کے عالمی توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ چین نے دو طرفہ جوہری ہتھیاروں میں کمی کے معاہدے کی تجدید پر امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والے 2020ء کے مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا، جس سے واشنگٹن ناراض ہوگیا، کیونکہ واشنگٹن نے اس معاہدے کو سہ فریقی معاہدے تک بڑھانے کی کوشش کی تھی، جس میں چین کو بھی شامل کرنا مقصود تھا۔ فارن پالیسی میگزین لکھتا ہے: "افغانستان سے انخلاء سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کا آئندہ کا مرکز چین ہوگا، جو جنوبی ایشیاء میں امریکہ کے مجموعی اسٹریٹیجک توازن کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔” ایشیاء اور یوریشیاء میں روس، چین اور ایران کے درمیان دوطرفہ اور سہ فریقی تعاون اور شنگھائی تعاون تنظیم کی صورت میں بڑھتے ہوئے تعاون کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان خطوں میں امریکہ کا زوال مستقبل میں مزید تیز ہوگا۔ چین اور امریکہ کے درمیان مقابلہ اب اقتصادی میدان سے آگے بڑھ کر عسکری میدان میں زیادہ واضح و نمایاں ہو رہا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز