Breaking News
Home / کالمز / قرارداد لاہور 1940ء: کیا ہمارے مقاصد تبدیل ہوگئے؟

قرارداد لاہور 1940ء: کیا ہمارے مقاصد تبدیل ہوگئے؟

(عظیم چوہدری)

25 فروری 1940ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں قائدِاعظم محمد علی جناح نے سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ ’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مسلم لیگ کا مطمع نظر کیا ہے‘۔ قائد نے فرمایا ’اگر آپ کو معلوم نہیں تو سن لیجیے۔ معاملہ بالکل صاف ہے۔ برطانیہ بھارت پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور مسٹر گاندھی اور کانگریس ہندوستان اور مسلمانوں دونوں پر حکومت کے خواہاں ہیں جبکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ برطانیہ اور مسٹر گاندھی میں سے کسی کو مسلمانوں پر حکومت نہ کرنے دیں گے۔ ہم مکمل آزادی چاہتے ہیں۔ مسلمانوں سے میرا کہنا ہے کہ خود کو منظم کریں‘۔

پاکستان کے قیام کے مطالبہ اور مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لیے دسمبر 1939ء طے کیا گیا تھا تاہم بعد میں 22، 23 اور 24 مارچ 1940ء کی تاریخ اور مقام منٹو پارک لاہور طے ہوا۔ 19مارچ کو خاکسار تحریک کے جتھے پر پولیس کے تشدد کے باعث اور خاکساروں کی شہادتوں کی وجہ سے یہ اجلاس منسوخ کرنے پر بھی غور ہوا مگر حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے اور وقت کے تقاضوں کے باعث انہی تاریخوں پر ہر صورت اجلاس کرنے کا فیصلہ ہوا۔

21 مارچ کو قائد اعظم لاہور آگئے تھے۔ 21 مارچ کو ہی مسلم لیگ کی کونسل کا اجلاس ہوا۔ 22 کو کھلا اجلاس ہوا۔ قائد اعظم نے کچھ دیر اردو اور پھر انگریزی میں تقریر کی اور انہوں نے دو قومی نظریے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ لالہ لاجپت رائے نے 1924ء میں سی آر داس کو تحریر کیا تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں اور ان کو ایک دوسرے میں مدغم کرکے ایک قوم بنانا ممکن نہیں۔ قائد اعظم نے ملک برکت علی کے جملہ معترضہ پر کہا کہ کوئی ہندو نیشلسٹ نہیں ہوا ہر ہندو اول و آخر ہندو ہی ہوتا ہے۔

22 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلاس میں لیاقت علی خان نے یہ قرار داد پیش کی کہ ’آل انڈیا مسلم لیگ کونسل اور ورکنگ کمیٹی نے 27 اگست، 17، 18 ستمبر ، 22اکتوبر 1939ء اور 3 فروری 1938ء کو آئینی امور کے بارے میں جو قرارداد منظور کی تھی آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس ان کی تائید اور اتفاق کرتے ہوئے نہایت پر زور طریقے سے واضح کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں جس فیڈریشن کی اسکیم پیش کی گئی تھی وہ موجودہ حالات میں قطعی بے سود اور ناقابل عمل ہونے کے باعث مسلمانان ہند کے لیے بالکل ناقابل عمل ہے۔

’یہ اجلاس مزید پرزور اعلان کرتا ہے کہ وہ اعلان تسلی بخش ہے جو ملک معظم کی حکومت کی طرف سے وائسرائے نے 18 اکتوبر 1939ء کو کیا تھا اور جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ ہندوستان کی مختلف جماعتوں، فرقوں اور مفادات سے مشورے کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پر غور کیا جائے گا اور مسلم لیگ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوگی جب تک قیام دستوری کے خاکے پر از سرنو غور نہیں کیا جاتا۔ مسلمان کسی دستوری خاکے کو جو ان کی مرضی کے بغیر مرتب کیا جائےگا منظور نہیں کریں گے۔

’قراردیا جاتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی یہ سوچی سمجھی رائے ہےکہ مسلمانان ہند صرف اس دستوری خاکے کو قبول کریں گے جو ذیل کے بنیادی اصولوں پر مرتب ہوگا۔

’جغرافیائی طور پر متعلقہ وحدتوں کے منطقے اس طرح وضع کیے جائیں کہ ضروری ردوبدل کے ساتھ جن خطوں میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے مثلا ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی زون ان کو ملا کر خودمختار مملکتیں بنادی جائیں جن کے ترکیبی یونٹ آزاد اور خود مختار ہوں۔ وحدتوں اور منطقوں میں رہنے والی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی سیاسی اور انتظامی حقوق اور دیگر مفادات کے لیے ان اقلیتوں کے مشورے سے دستور میں مناسب قانون اور پر زور تحفظات رکھے جائیں‘۔

بقول عاشق بٹالوی قائداعظم چاہتے تھے کہ فوری بحث کرکے فیصلہ کرلیا جائے تاہم ارکان کی اکثریت اس پر اگلے روز بحث کر نا چاہتی تھی اور قرارداد کا اردو ترجمہ بھی مطلوب تھا اس لیے یہ دوسرے روز کے لیے ملتوی ہوگئی۔ بعض اکابرین کا خیال تھا کہ صوبوں کے نام قرارداد میں واضح ہوں مگر لیاقت علی خان نے کہا کہ مصلحت کے تحت نام نہ دیں کیونکہ اس طرح ہماری سرحد دہلی اور گوڑ گاؤں تک ہوسکے گی۔

23 مارچ 1940ء کو مولوی فضل الحق نے ایک مدلل تقریر کی اور اردو میں قرارداد لاہور پیش کی گئی۔ یہ قرارداد قائداعظم، نواب اسمٰعیل، سر سکندر حیات اور ملک برکت علی نے تیار کی تھی تاہم چوہدری خلیق الزماں کو یہ دکھ رہا کہ مسلم لیگ کی تمام قراردادیں وہی تحریر کیا کرتے تھے بس یہ ایک قرارداد انہوں نے تحریر نہ کی تھی۔

سر سکندر حیات بھی ایک قرارداد ساتھ لائے تھے مگر اس کو منظور نہ کیا گیا تھا۔ قرارداد لاہور کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے اور نگزیب خان، سندھ سے سر عبد اللہ ہارون، مدراس سے عبد الحمید خان، سی پی سے عبد الرؤف شاہ، ممبئی سے آئی آئی چندریگر اور بہار سے نواب اسمٰعیل نے کی تھی۔

قرارداد لاہور میں شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ریاستوں کا ذکر تھا اور یہ قرارداد جناح پیپرز کے مطابق 23 مارچ کو پیش ہوئی اور 24 مارچ کو منظور کی گئی۔ ہم یومِ پاکستان 23مارچ کو کیوں مناتے ہیں یہ ایک سوال ہے کہ حالانکہ 23 مارچ کی عام تعطیل 23 مارچ 1956ء کو آئین کے نفاذ کے حوالے سے شروع ہوئی تھی۔ یومِ پاکستان تو قرارداد منظوری کے دن گویا 24 مارچ کو ہونا چاہیے۔

اپریل 1941ء کو ریاستوں کے مطالبے کو ٹائپ کی غلطی قرار دے دیا گیا اور نصب العین کو بھی چھوڑ دیا گیا جس کے تحت ہندوستان میں ایک فیڈریشن کا قیام تھا جہاں مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی اور تمدنی حقوق کا خاص تحفظ مطمع نظر تھا۔

مسلم لیگ کے دستور کے مطابق جنرل کونسل سے منظور شدہ کوئی بھی فیصلہ یا قرارداد کوئی اور باڈی تبدیل کر نے کی مجاز ہی نہیں ہوا کرتی تھی اور اب بھی نہیں ہے مگر ایسا ہوا بھی اور اب بھی ہوجاتا ہے۔ 1946ء میں جب ریاستوں کے مطالبے کو ریاست میں تبدیل کیا گیا تو اصولی طور پر اس کا فیصلہ جنرل کونسل ہی کرسکتی تھی، کیا مصلحت تھی اس کو اب تو سمجھا جاسکتا ہے کہ مذاکرات جن کی تفصیل اب بھی پوری طرح موجود نہیں اس میں قائد اعظم نے یہی مناسب سمجھا ہو۔ اگر دو ریاستیں ہی بن جاتیں تو جو بدمزگی، اختلاف اور ہزیمت ہمیں بھارت کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کے خاتمے اور بنگلہ دیش کے قیام کی صورت اٹھانا پڑی یہ نہ ہوتی اور تعلقات بہت بہتر ہوتے اور قائد اعظم ہی اس کے بابائے قوم ہوتے نہ کہ کوئی اور۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن مقاصد کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا اور تسلیم کروایا گیا اس کا نصب العین کیا تھا اور نصب العین کس حد تک پورا ہوا اور کس قدر پامال کیا گیا۔ آئین میں دی گئی تمام ضمانتیں، حقوق، صرف تحریر کردہ ہی رہ گئے جمہوری انداز سے بنایا گیا ملک جمہوریت کے لیے تڑپ رہا ہے۔ انسانی حقوق صرف اس طاقتور کو حاصل ہیں جو ریاست کو گالی دے سکتا ہو، قانون شکنی کرسکتا ہو، آئین کی بے حرمتی کرتا ہو اور پارلیمنٹ کو بے توقیر کرکے ملک میں امن وامان کا مسئلہ پیدا کرسکتا ہو۔ یہ فرد ہی نہیں گروہ بھی کر سکتا ہے اور کرتے بھی رہتے ہیں۔

آزادی انگریز سے مل گئی تھی ہندو سے حاصل کرلی گئی مگر انگریز کے بابو یا اس کی خواہشات کی تکمیل کر نے والوں کے پاس اب بھی 23 کروڑ آزادی کے طالب ہیں۔ نہ ہم آزاد نہ ہمارا سماج آزاد، نہ ہی سیاست آزاد، نہ ہی ہماری معیشت، تعلیم اور نہ اخلاق۔ ہم اسلامی روایات یا آزاد ریاست کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ملک بھی نہ بن سکے۔

15 اگست کو ہم نے 14 اگست کے ساتھ تبدیل کرلیا۔ 24 مارچ کو بھی ایک دن پہلے 23 مارچ میں تبدیل کرلیا مگر نہ ہم تبدیل ہوئے نہ ہونے کو تیار ہیں ہمیں آزادی چاہیے، آزادی اور آزادی مگر آزادی تو قوموں کو حاصل ہوتی ہے کیا ہم ایک قوم بن چکے ہیں یا ابھی اس کے مراحل سے گزرنا باقی ہے؟

میرے نزدیک ہم ایک ہجوم ہیں۔ بے سمت ہجوم جس کو اپنی سمت کا اندازہ نہیں۔ مقصدِ حیات اگر معلوم ہے تو وہ ریاستی راز ہے۔ ریاستی راز صرف چند لوگ ہی جان سکتے ہیں، قوم کا اس سے کیا تعلق۔ اگر مستقبل کی طرف نظر ڈالوں اور اس خیال سے ڈالوں کہ صرف اچھائی ڈھونڈ کر لانی ہے تو بھی مجھے خیر وبرکت، خوشحالی، تحمل، بر داشت، برد باری، تعلیم، فہم، ادراک، دانش مندی اور دور اندیشی کہیں کوسوں نہیں ہزاروں میل تک نظر نہیں آتی۔

قومیں لیڈر یا حادثات بناتے ہیں۔ حادثہ تو بے اثر رہا مگر بنگلہ دیش میں کچھ اثر نظر آتا ہے لیکن لیڈر ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو قائد کے کھوٹے پیسوں کے برابر ہو۔ یہ موقع ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان کو حاصل ہوا تھا مگر ہر کسی نے قومی مفادات کی بجائے اپنی شخصیت کو بڑا کرنے کی کوشش میں خود کو بھی برباد کر دیا۔

دنیا ہمیں مشکلات پیدا کرنے والا ایک ملک ہی سمجھتی اور دیکھتی ہے۔ ہر کوئی ہمیں مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ 80 ہزار سے زائد جانیں نثار کرکے بھی ہم امن پسند ملک قرار نہیں پائے۔ ہم اپنی غلطیوں کا الزام دوسروں پر ڈالتے ہیں، خوشحال، تعلیم یافتہ، اسلامی فلاحی پاکستان کا خواب ابھی بھی خواب ہے۔

دور اندیشی، معاملہ فہمی، فیصلہ سازی کے فقدان کا ہم شکار ہیں، ہماری کسی بھی پالیسی کا تسلسل موجود نہیں حتیٰ کہ بھارت کے بارے بھی نہیں۔ ہم دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ معاشی طورپر اس قدر کمزور کہ آزادی کے فوراً بعد ہم نے دنیا میں نعرہ بلند کیا کہ جو ہمیں امداد اور احساس تحفظ دے گا ہم اس کے ساتھ ہوں گے جس قدر پورا پاکستان امریکا سے مایوس ہوا ویسے دوسرا ملک نہ ہوا۔

ہمارے نصف بچے اسکول جاتے ہی نہیں پھر جو جاتے ہیں ان کا نصف سکینڈری درجے تک ہی پڑھتا ہے، صرف 5 فیصد اعلیٰ تعلیم حاصل کر تے ہیں۔ ایسے میں ہم کیسے آزادی حاصل کرسکتے ہیں جب معیشت بھی آزاد نہ ہو، سیاست بھی آزاد نہ ہو، خارجہ تعلقات بھی دوسروں کے رحم وکرم پر ہوں۔ دینی مدارس تعلیم تو دیتے ہیں مگر خاص نقطہِ نظر کے ساتھ جو محبت نہیں اختلاف پیدا کرتی ہے۔ یہ انتہا پسندی کی طرف لے جاتے ہیں اور برداشت ختم ہوجاتی ہے، ہم کس کس کا چیز کا رونا روئیں۔

دالیں بھی آسٹریلیا سے منگوائی جاتی ہیں، گندم بھی باہر سے، تیل بھی باہر سے اور گھر چلانے کو قرض لینے کے علاوہ ہم کسی کام کو اپنی ترقی اور پڑھائی نہیں مانتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم من حیث القوم اپنی نئی منزل کا تعین کریں، اپنے انداز سے ان سب کے ساتھ ’معاملہ‘ کریں جو ’مسئلہ‘ ہیں اور مسئلے کو حل کرکے دکھائیں۔ انصاف دینے والے حصوں میں تقسیم ہیں اور جب انصاف ہی فوری اور سستا نہ ہوگا تو حق دار مر ہی جائے گا۔

ہم نعروں کے فریب میں جلد یا بدیر تباہ و برباد ہو نے والے ہیں۔ ہر بات میں جھوٹ، نااہلی، کاہلی، اقربا پروری اور کرپشن قوم کی تباہی کی نشاہی ہوتی ہے۔ جس آزادی کی ہمیں ضرورت ہے وہ ہم نے اپنے آپ سے، اپنے خیالی فریب اور سراب سے حاصل کرنی ہے اگر اپنی ذات اور ذاتی فائدے سے اوپر ہو کر دیکھیں گے تو پھر دوسروں کی مثال دینے کی ضرورت نہ ہوگی۔ قرآن قوموں کی تباہی کے بارے میں صراحت سے ارشاد فرماتا ہے اور ہم ان نشانیوں کے قریب تر ہوچکے ہیں۔بشکریہ ڈان نیوز

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے