سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر الیکشن کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں، کمیشن کو تیار رہنا چاہیے۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔ نئے اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان عدالتِ عظمیٰ میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو خوش آمدید کہتے ہیں، ہمارے اچھے دوست فاروق ایچ نائیک بھی یہاں ہیں، ان کی معاونت بھی اس اہم مسئلے پر درکار ہو گی، مدعا یہ ہے کہ اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے، کل کے حکم نامے کے مطابق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو دیکھنا ہے، سیاسی جماعتوں کے فریق بننے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، رول آف لاء اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، آج کل سیاسی پارہ بہت اوپر ہے، گزشتہ روز یہ درخواست کی تھی کہ سیاسی جماعتیں یقین دہانی کرائیں، آپس میں برداشت، تحمل، امن و امان کی صورتِ حال ہونی چاہیے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم بھی اس کیس میں اسٹیک ہولڈر ہیں۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ کی اہمیت پر کوئی انکاری نہیں، ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہمیں قانونی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے، ہم نے سماجی اور سیاسی ڈسپلن کی بحالی بھی کرنی ہے، سپریم کورٹ اچھی نیت کے ساتھ کیس سن رہی ہے، فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لے کر جاتے ہیں، عدالت نے حقیقت کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہے، کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلاء میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئین زندہ دستاویز ہے، اس کی تشریح زمینی حالات پر ہی مبنی ہو سکتی ہے، تعین کرنا ہے کہ موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں جمہوریت اور ملک کے لیے کیا بہتر ہے، سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں، انہیں لازمی سنا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے فاروق نائیک سے سوال کیا کہ آپ یہ پوائنٹ پارلیمنٹ کیوں نہیں لے جاتے؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ یکم مارچ کے حکم میں 2 ججز نے فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یہ ایک الگ کیس ہے، یکم مارچ کے فیصلے پر میرا جواب ہے کہ قانون صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ تاریخ دیں، اگر آپ یکم مارچ کے فیصلے پر وضاحت چاہتے ہیں تو الگ سے درخواست دیں، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدرِ مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں، 2 معزز ججز نے فیصلہ دیا ہے، ان 2 ججز کی اپنی رائے ہے لیکن اس کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں، ایک سنجیدہ معاملے کو بائی پاس نہ کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عمل درآمد کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔
اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ہے کہ یہ اہم معاملہ ہے اور بینچ مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بتا دیں کہ کیا آئین 90 دنوں میں انتخابات کرانے کا تقاضہ کرتا ہے یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ آپ کی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، کیا آپ نے اپنی سیاسی قیادت سے بات کی؟ پی ٹی آئی کو پہل کرنا ہو گی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں، آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے اُن لوگوں کا سوچیں۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ تحریکِ انصاف اگر پہل کرے تو ہی حکومت کو کہیں گے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابات عوام کے بنیادی حق کا معاملہ ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن 90 دن میں الیکشن شیڈول دینے کا پابند ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک بار تاریخ کا اعلان کر دے تو واپس نہیں لے سکتا۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ بد قسمتی سے کسی کو کوئی شک نہیں کہ 90 دن میں انتخابات اب نہیں ہو سکتے، سوال یہ ہے کیا اس معاملے کو جمہوری طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا تھا؟ آئین کی تو پاکستان میں کوئی پرواہ نہیں کرتا، الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں، سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریخ بڑھانے کی اتھارٹی کس کی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے یا نہیں؟ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد آ جائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار پر پارلیمنٹ کو نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کر سکتی ہے، آئین انتخابات کے بنیادی حق میں کسی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، ماضی قریب میں الیکشن میں تاخیر کے لیے کوششیں کی گئیں، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ وہ تاریخ نہیں دے سکتے، گورنر کہتے ہیں کہ تاریخ دینا میرا اختیار ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اس عدالت کے حکم پر عمل درآمد ہو چکا، اس بنا پر الیکشن شیڈول دیا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدرِ مملکت کی تاریخ کو بدل دے؟ کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کی 2 شقوں کا سہارا لیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا ہے کہ آئینی ذمے داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کر سکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی الیکشن کمیشن رجوع کر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہو گا، الیکشن کمیشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ 90 دن کے بعد کی دی، آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو تو ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو تو ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن از خود انتخابات ملتوی کرنے کا حکم جاری نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن 6 ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو 6 سال بھی کر سکے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے اس پر آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہو گا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کے حکم میں کہا کہ فنڈز فراہم نہیں کیے گئے، الیکشن کمیشن نے کبھی فنڈز دینے کی درخواست نہیں کی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اخبار میں وزیرِ اعظم کا بیان پڑھا تھا، وفاقی حکومت کہتی ہے کہ مارچ تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا، حیرت ہے کہ انتخابات کے لیے 500 میں سے 20 ارب نہیں دیے گئے۔ علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ فنڈز دینا مشکل ہو گا، وزارتِ خزانہ نے مشکل کہا تھا، انکار نہیں کیا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ نے تو کہا کہ الیکشن کے لیے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکریٹری ایسا فنٹاسٹک بیان کیسے دے سکتا ہے؟ ٹیکس جمع ہو کر فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں جاتا ہے۔
چیف جسٹس کی ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز
اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے انتخابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویزدے دی اور کہا کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کے لیے کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے، حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکریٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔ جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ سیکریٹری خزانہ منظور کردہ بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے؟ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے سوال کیا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کے پیسے کہاں سے آنے ہیں؟ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، معاشی بحران کی حقیقت سے نظر نہیں چرائی جا سکتی، بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے، خیبر پختون خوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں 367، خیبر پختون خوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورتِ حال خیبر پختون خوا سے مختلف ہے، ترکیہ میں زلزلہ متاثرہ علاقوں کوچھوڑ کر ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے کہ جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کر دیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔
دوران سماعت ’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کا تذکرہ
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ایبسلوٹلی ناٹ۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے اصل میں کسی اور کو کہا تھا۔
عدالت میں 30 منٹ کا وقفہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت میں 30 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا بجٹ میں انتخابات کے لیے فنڈز مختص ہوتے ہیں؟ اگر فنڈز نہیں ہیں تو لینے کا طریقہ کار آئین میں درج ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر نے گزشتہ سال بتایا تھا کہ نومبر 2022ء میں الیکشن کے لیے تیار تھے، اب الیکشن کمیشن نے اچانک کہہ دیا ہے کہ فنڈز نہیں ہیں، فنڈز نہ ہونا الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی بہانہ نہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عملہ موجود ہے، انتخابات کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے، سیکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کا ذکر کیا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے سابق چیف جسٹس کو قتل کر دیا گیا، آئین واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہائی کورٹ نے کروانا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے احکامات کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
وکیل علی ظفر نے استدعا کی کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، مناسب ہو گا کہ سپریم کورٹ خود کیس سنے۔
جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن انتظامی اداروں کے خلاف خود کارروائی کر سکتا ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن اداروں کو ہدایات جاری کر سکتا ہے، ادارے عمل درآمد نہ کریں تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو کہا تھا کہ وہ تاریخ مقرر نہیں کر سکتے۔
جسٹس امین الدین نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے بعد میں 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دی؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اکتوبر میں پھر کہہ دے کہ حالات ٹھیک نہیں تو کیا الیکشن جنوری تک جا سکتے ہیں؟ عدالت فیصلہ کرے تو آئی ایم ایف اور دوست ممالک خوش ہوں گے، قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں، غیر آئینی اقدام کے خلاف عدالت ہی آخری دیوار ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل
اس کے ساتھ ہی پاکستان تحریکِ انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو سیکشن 58 کا اختیار الیکشن ایکٹ پر عمل درآمد کے لیے ہے۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر الیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے یا عدالت کالعدم قرار دے کر کہےکوئی مدد نہیں کر رہا تو کیا ہوگا؟ اپنی مشکلات حل کروانے کے لیے کمیشن کو عدالت ہی آنا پڑے گا۔
اٹارنی جنرل کے دلائل
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 30 جون تک 170 ارب روپے ٹیکس کی مد میں وصول کرنے کا ہدف ہے، آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرحِ سود میں اضافہ کیا جائے، شرحِ سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا انتخابات کے لیے 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کے لیے مشکل کام ہے؟ کیا عام انتخابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ صوبوں کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانا وفاق کی آئینی ذمے داری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارہوں ترمیم کے بعد وفاق غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں، وفاق کی معاشی صورتِ حال سے کل آگاہ کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ الگ الگ الیکشن کروانے کے پیسے نہیں ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سارا معاملہ ترجیحات کا ہے، لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے 10 ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے 20 ارب روپے کیوں نہیں نکل سکتے؟
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ اراکین کو ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز کا اجراء بھی ہوا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اراکین کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کے لیے فنڈز دینا صوبے کی ذمے داری ہے یا وفاق کی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ الیکشن کے لیے فنڈز دینا صوبے کی ذمے داری ہے یا وفاق کی؟ الیکشن کمیشن نے بال وفاقی حکومت کی کورٹ میں پھینکی ہے، جواب بالآخر وفاقی حکومت کو ہی دینا ہو گا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ چیلنج کیا گیا ہے۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے اضافی دستاویزات کے لیے وقت مانگ لیا اور استدعا کی کہ جو اجلاس ہوئے ان کے منٹس پیش کرنا چاہتے ہیں، کل تک کا وقت دے دیں۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ کل تک وقت نہیں دے سکتے، آپ دلائل کا آغاز کریں، کل دوبارہ موقع دے دیں گے۔
اس موقع پر مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جنہوں نے کہا کہ عدالت نے سیاسی جماعتوں کو بھی سننے کا کہا تھا، عدالت فریق بنائے اور تحریری جواب کے بغیر کیسے سن سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے قانونی نکتے طے ہو جائیں پھر آپ کو بھی موقع دیں گے۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا ترقیاتی فنڈز کے اعلان کی وقت آئی ایم ایف کی شرائط موجود نہیں تھیں؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان خان نے جواب دیا کہ ترقیاتی فنڈ والی بات شاید 5 ماہ پرانی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کے لیے فنڈز فراہم کرنا وفاق کی ذمے داری ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کے تحت ضمنی گرانٹ جاری کی جا سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان خان نے کہا کہ مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے، وزراتِ دفاع نے کہا کہ سیکیورٹی حالات کی وجہ سے فوج فراہم نہیں کر سکتے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سوچا ہو کہ تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہو جائے گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہمارے شہداء اسی دھرتی کے سپوت ہیں، اس سے زیادہ کوئی کیا کر سکتا ہے کہ اپنی جان کی قربانی دے، افواج کے خاندانوں کا حوصلہ ہے کہ اپنے بچوں کو مورچوں میں بھیجتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں، کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جا سکتا؟ دہشت گردی کے مسائل 90ء کی دہائی سے چل رہے ہیں، کیا 90ء کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے؟ دہشت گردی کے دوران بھی انتخابات ہوئے جس کی سب سے زیادہ قیمت سیاستدانوں نے چکائی، پیپلز پارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا، ان تمام حالات کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل245 کے تحت حکومت انتخابات کی ڈیوٹی کے لیے فوج کوپابند کر سکتی ہے، انتخابات پر خرچے والی بات تو سمجھ آتی ہے کہ الگ الگ کرانے سے زیادہ پیسے لگیں گے، فوج کی سیکیورٹی نہ دینے والی بات مجھے سمجھ نہیں آتی، آئین کے تحت فوج کی ذمے داری ہے کہ الیکشن کے دوران ڈیوٹی کرے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگردوبارہ بھی اسمبلی توڑ دی جائے تو سب کی ذمے داری ہے کہ فرائض انجام دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دوسری جنگِ عظیم میں بھی انتخابات ہوئے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1988ء میں انتخابات اگست میں ہونے تھے، جنرل ضیاء کی وفات کے بعد الیکشن نومبر میں ہوئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 1988ء میں الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کس نے کیا تھا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قائم مقام صدر نے الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا تھا، 1988ء میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین و قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ بدلنے کا اختیار نہیں، یہ بات بالکل واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو انتخابات میں التواء کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت ہی آتا ہے، اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں، 2008ء میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی، کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ محترمہ بینظر بھٹو کی شہادت الیکشن ملتوی کرنے کی بڑی وجہ تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔
الیکشن کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں، کمیشن تیار رہے: جسٹس منیب
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں، کمیشن کو تیار رہنا چاہیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر نے خود کہا تھا کہ 4 ماہ میں الیکشن کروا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک کے اُس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حکومت چلانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن وہی وجہ بتا سکتا ہے جو اس کے حکم میں لکھی ہوئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو مردم شماری سے بھی آگاہ کروں گا، مردم شماری ابھی بھی جاری ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مردم شماری کے بعد 4 ماہ حلقہ بندی میں بھی لگتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سرکاری عملہ مردم شماری میں مصروف ہے، مردم شماری کے بعد نشستوں کا تناسب بدل جاتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری کے دوران الیکشن نہیں ہو سکتے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1988ء میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے سے خلاء پُر کیا تھا۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا ہم یہ سمجھیں کہ قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے؟ کیا پاکستان پھر سے بنانا ریپبلک بن گیا ہے؟ افواج حکومت کے ماتحت ہیں وہ کیسے سیکیورٹی کی فراہمی سے انکار کر سکتی ہیں؟ فوج کو الیکشن کی ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ذمے داری تو ذمے داری ہوتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس مردم شماری کے نتائج شائع ہو چکے ہوں اس کی بنیاد پر ہی الیکشن ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر مردم شماری کے دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی تو کیا ہو گا، کیا نگراں حکومت مردم شماری کے نتائج شائع کر سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 30 اپریل کو مردم شماری مکمل ہونی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری کے نتائج آنے میں کئی سال لگے تھے، آپ پر بھروسہ کیسے کریں کہ نتائج تاخیر سے شائع نہیں کریں گے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2 صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، آئین کے تحت 90 دن میں الیکشن ہونا ہے، مشترکہ مفادات کونسل جو بھی کرے، کیا الیکشن کی آئینی مدت آگے جا سکتی ہے؟ آئینی طور پر مشترکہ مفادات کونسل کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مردم شماری کا اثر پنجاب اور کے پی میں قومی اسمبلی کے الیکشن پر پڑے گا۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ صوبوں میں قومی اسمبلی کے الیکشن کا نئی حلقہ بندیوں پر کیا اثر پڑے گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ 2017ء سے ایک سیاسی جماعت مردم شماری پر اعتراض کر رہی ہے، عوام کی نمائندگی ہی شفافیت سے ہونی چاہیے، پہلی بار عدالت الیکشن ملتوی کرنے کی وجوہات کا جائزہ لے رہی ہے، اصل صورتِ حال یہ ہے کہ اتنے لمبے عرصے کے لیے الیکشن ملتوی کیسے کیے جا سکتے ہیں، بینظیر بھٹو کی شہادت پر الیکشن صرف 40 دن آگے ہوئے تھے، احتجاج میں الیکشن کمیشن کے دفاتر جلائے گئے تھے، ملک بھر میں سانحے پر احتجاج ہو رہے تھے، الیکشن کے لیے سیاسی پختگی کی ضرورت ہے، سیاسی بلوغت پر بھی ہدایات لے کر آئیں، سندھ میں ٹرین پر سفر کیا، ہر جگہ پانی میں ڈوبی ہوئی تھی، بلوچستان میں کئی جگہ ٹرین پیدل چلنے والوں کی رفتار سے چلتی ہے، کوئٹہ سے ابھی تک ریل کا راستہ منقطع ہے، جہاں نقل و حرکت مشکل ہو وہاں الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں، الیکشن کمیشن کا فیصلہ جلد بازی میں لکھا گیا۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جائے تو انتخابات کی تاریخ کا کیا ہو گا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے، گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنج ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع اس کے اپنے وکلاء کریں گے، حکومت سے فنڈز اور سیکیورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا، پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا، فنڈز کے حوالے سے کل سیکریٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا، آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت 170 ارب حکومت نے وصول کرنے تھے، اضافی وصولی کے لیے ضمنی بجٹ دیا گیا، جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری ذاتی سمجھ کے مطابق ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا مزید اقدامات کر کے 20 ارب اضافی نہیں لیے جا سکتے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حکومت نے تخمینہ 170 ارب سے زیادہ کا ہی لگایا ہو گا۔