چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات ملتوی کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ تو قع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا،سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا۔ آج تیسری مرتبہ بنچ تشکیل دیا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کیس کی سماعت کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بنچ سماعت کر رہا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آج 4 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا اور آج کی کازلسٹ جاری کی تھی۔ کیس کی سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے ہونا تھی تاہم جسٹس جمال مندوخیل کی معذرت کیبعد بنچ دوسری مرتبہ ٹوٹ گیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے موقف دیا ہے کہ آرڈر کورٹ میں لکھوایا نہیں گیا اور نہ ہی چیف جسٹس نے ان سے مشاورت کی ہے، معاملے کو اوپن کورٹ میں غور کرنا چاہیے، مجھ سے آرڈر لکھواتے وقت کوئی مشورہ نہیں کیا گیا، میں سمجھتا ہوں کہ بینچ میں میری ضرورت نہیں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں اس دعا کیساتھ خود کو الگ کرتا ہوں کہ اللہ اس ادارے کو خیر میں رکھے، جو بھی فیصلہ آئے وہ سب کو قبول ہوہم سب آئین کے پابند ہیں اور رہنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجا زالاحسن،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل پربنچ مشتمل تھا۔ سماعت کے دور وکیل بار کونسل نے کہا کہ پاکستان بار کونسل والے کچھ کہنا چاہتے ہیں، ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں،اس پر فل کورٹ نہیں بن رہا تو فل کورٹ میٹنگ بنادیں۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ ایک بات آپ کو بتا دیں کہ ہمارے درمیان کوئی بھی اختلاف نہیں،انہوں نے کہا کہ آج بھی ایک جج نے سماعت سے انکار کردیا ہے،اس کے باوجود ہم بالکل چپ ہیں، ہم اس کو دیکھ رہے ہیں، پاکستان بار کونسل کو اس صورتحال میں چاہیے تھا پہلے سامنے آتے، آپ کو جب علم تھا یہ سب کچھ ہورہا ہے تو بار کو سامنے آنا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارے پاس چیمبر میں آجائیں، آپ کو علم ہو کہ بار کے بغیر بینچ اور بینچ کے بغیر بار کچھ نہیں ہے،اس عدالت میں میڈیا کہ کچھ لوگ موجود ہیں جوکبھی صحیح تو کبھی غلط رپورٹ کرتے ہیں،
اس کے باوجود ان کی عزت کرتے ہیں، آئین ہمارے معاشرے کو اکٹھا رکھنے اور جمہوریت کیلئے ضروری ہے،پارلیمنٹ کو دیکھیں تو وہاں پر اہم ترین لوگ بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم صرف آئین پر عمل در آمد کرنے کی بات کررہے ہیں، آئین میں 90دنوں میں الیکشن کرانے کی بات موجود ہے،صدر اور الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ صرف بیرونی تشخص کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کردیتے ہیں،
عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز جسٹس امین الدین خان نے بھی کیس سننے سے معذرت کر لی تھی جس کے باعث بنچ ٹوٹ گیا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ جسٹس امین کچھ کہنا چاہتے ہیں، جس پر جسٹس امین الدین نے کہا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے تناظر میں کیس سننے سے معذرت چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم جو اس بنچ میں ہیں انہوں نے بہت زیادہ suffer کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ آپ کو علم ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں سب سے اچھے ججز ہیں، چیف جسٹس نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ ہم بھی دل رکھتے ہیں، ہمارے بھی احساسات ہیں۔
چیف جسٹس کامزید کہنا تھا کہ کیا آپ نے جسٹس شاہد وحید اور جسٹس عائشہ ملک کے فیصلے پڑھے ہیں، ان کے فیصلے بہترین تھے، ان کا کہنا تھا کہ لوگ فیصلے پڑھے بغیر ہی ججز کی ذات پر تنقید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ میں دو سال سے بہت چیزیں دیکھ رہا ہوں،میں نے جسٹس اقبال حمیدالرحمان جیسے اچھے دوست گنوائے ہیں، جسٹس اقبال حمید الرحمان جب استعفے دے رہے تھے تو میں نے روکا کہ نہ دیں، اس موقع پر جسٹس اقبال حمید الرحمان نے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے میں اپنے والد کو منہ کیسے دکھا سکتا ہوں۔ دوران ریمارکس چیف جسٹس عمر عطا بندیال جذباتی ہوگئے،
جس پر عرفان قادر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سماعت کے دوران جذباتی نہیں ہونا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے،آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں،جلد ہی ان معاملات کو سلجھا دیں گے.
نو رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا،جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں، چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔ چیف جسٹس نے جسٹس فائز بارے کہا کہ دو سال جسٹس فائز عیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی،جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا،ایک ٹیکس کا معاملہ تھا حکام کو بھیج کر حل کردیتے۔ سپریم کورٹ میں سماعت پیر ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔