(تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم)
ماہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ دنیا بھر میں قبلہ اول القدس شریف کی آزادی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں لوگ اس دن فلسطینی مظلوم عوام کے حق میں نکلتے ہیں اور فلسطین سمیت قبلہ اول پر صہیونی غاصبانہ تسلط کے خلاف احتجاج کرکے اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔ یوم القدس کا دن ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی نے منانے کی اپیل کی۔ ایک عالم دین اور مجتہد ہونے کی حیثیت سے انہوں نے حالات اور واقعات کو دیکھتے ہوئے یوم القدس منانے کا اعلان کیا اور اپنے پیروکاروں سے کہا کہ یوم القدس مظلوموں کا دن ہے، یوم القدس یوم اللہ ہے، یوم رسول اللہ ہے، یوم القدس اسلام کا دن ہے، یوم القدس مظلوموں کا دن ہے، یوم القدس ظالموں کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کا دن ہے۔ یوم القدس دنیا کے ظالم نظاموں سے بغاوت کا دن ہے۔ یوم القدس قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی اور بازیابی کا دن ہے۔
یہاں تک کہ یوم القدس کے اوصاف بیان کرنے کے بعد امام خمینی جیسے عظیم رہنماء و رہبر نے اس دن کی مزید اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جو اس دن کو نہیں منائے گا، وہ استعمار کی خدمت کرے گا اور استعمار کا ایجنٹ ہے۔ یعنی امام خمینی یہ بات بھی جانتے تھے کہ جب وہ اپنے ماننے والے اور اپنے پیروکاروں کے لئے اس حکم کو جاری کریں گے تو آنے والے وقت میں اسلام دشمن اور فلسطین دشمن قوتیں یقینی طور پر اس دن کو ختم کرنے یا اس دن کے اثرات کو روکنے کے لئے منفی ہتھکنڈوں کا استعمال کریں گی۔ لہذا امام خمینی نے پہلے ہی واضح کر دیا کہ اب اگر یوم القدس کے خلاف کوئی بھی بات اندر سے یا باہر سے ہوتی ہوئی نظر آئے تو اس کا مطلب ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کی زبان ہے، استعمار کی زبان ہے۔
امام خمینی کے اس حکم پر آج جہاں ان کے پیروکار عمل کرتے نظر آتے ہیں، وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں بھی رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کی مساجد سے جہاں خطبوں میں یوم القدس کی اہمیت بیان کی جاتی ہے، وہاں دیکھنے میں آیا ہے کہ ہفتہ وار مذہبی عبادات میں مسیحی برادری اور چرچ میں بھی یوم القدس کی بات کی جاتی ہے۔ یعنی مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی عربوں میں یوم القدس انتہائی اہمیت کا حامل دن ہے۔ فلسطین کے باشندے چاہے وہ مسیحی ہو یا مسلمان ہوں، سب کے ساب یک زبان ہو کر رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے عنوان سے مناتے ہیں۔ القدس شریف میں نماز جمعہ کے اجتماع کے بعد ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جو ہمیشہ سے جاری و ساری ہے۔ اس مرتبہ بھی یوم القدس منانے کے لئے مقبوضہ فلسطین میں بڑے پیمانے پر تیاریاں جاری ہیں۔ اسی طرح غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینی بھی دنیا کے مسلمانوں سے پیچھے نہیں ہیں اور یہاں بھی یوم القدس جوش و جذبہ کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
جہاں تک دنیا کے دوسرے ممالک کی بات کی جائے تو کم و بیش دنیا کے تمام ہی ممالک میں، چاہے وہ عربی ہوں یا غربی ممالک ہوں، تمام مقامات پر یوم القدس کے اجتماع منعقد ہوتے ہیں۔ یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس نے نہ صرف ایک طرف پوری دنیا کے انسانوں کو مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے بیدار کر دیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں اور مسلمان اقوام کو عملی طور پر اس نقطہ پر متحد کیا ہے کہ سب باہمی اتحاد اور وحدت کے ساتھ فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لئے متفق ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام خمینی نے یوم القدس منانے کا جو فلسفہ دنیا کو پیش کیا، اس فلسفہ نے دنیا کی مسلمان اقوام کو باہمی ربط میں جوڑ دیا ہے۔
اتحاد اور محبت کی ایک ایسی فضا قائم کی ہے، جس سے امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کی شکست دراصل مسلم اقوام کا اتحاد ہے اور خاص طور پر یہ اتحاد اگر قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کی خاطر ہو تو یقینی طور پر امریکہ اور اسرائیل کی تمام تر شیطانی سازشوں کی ناکامی کا باعث بنتا ہے۔ اس سال یوم القدس ایسے حالات میں رونماء ہو رہا ہے کہ ایک طرف غاصب صہیونی حکومت اپنی آخری سانسوں کی گنتی میں مصروف عمل ہے تو دوسری جانب اسلامی مزاحمت روز بروز ترقی اور طاقت کے راستے پر گامزن ہے۔ حماس و حزب اللہ اور جہاد اسلامی کا باہمی اتحاد دشمن کی صفوں میں کہرام مچا رہا ہے۔ اسرائیل اپنے آخری ایام یعنی نابودی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہے۔ ایک طرف سے مزاحمت کی کاری ضرب ہے تو دوسری طرف اندر سے صہیونی آباد کاروں کے باہمی فسادات نے صہیونی تابوت میں کیل ٹھونک دی ہے۔
ایسے حالات میں کچھ عرب دنیا کے بدبخت حکمران ہیں کہ جنہوں نے غاصب اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری اور تعلقات قائم کئے ہیں، یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ مرتے ہوئے کو آکسیجن دی جائے۔ لیکن شاید یہ عرب حکمران بھول چکے ہیں کہ خدا کا فیصلہ ہے کہ فلسطین آزاد ہو کر رہے گا اور اسرائیل نابود ہوگا۔ اس سال کے یوم القدس کو اسرائیل نامنظور کے نعروں کے ساتھ گونجنا چاہیئے، پاکستان میں یہ نعرہ مسلسل گونج رہا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے اور پاکستان اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ لہذا پاکستان بھر میں یوم القدس کے دن نکلنے والی القدس ریلیوں میں ایک ہی شعار گونج اٹھے کہ اسرائیل نامنظور، پاکستان میں اسرائیلی ایجنٹ نامنظور، یہی یوم القدس کا پیغام ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز