(ضیا الرحمٰن ضیا)
بارہ برس کے بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارت کا سرکاری دورہ کیا۔ یہ دورہ اگرچہ براہ راست بھارت کی دعوت پر نہیں تھا بلکہ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کےلیے بھارت مدعو کیا گیا تھا۔ وہاں پاک بھارت وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والے مختصر ملاقات خوشگوار رہی مگر بعد میں روایتی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برسائے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دورۂ بھارت کے دوران وہاں پر بھی پاکستان کا اصولی موقف دنیا کے سامنے رکھا اور واپس پاکستان آکر بھی بھارتی وزیر خارجہ کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
ٹھیک ہے کہ دنیا میں آواز بلند کرنا ضروری ہوتا ہے، کسی مسئلے پر بالکل خاموش ہوجانا انتہائی نقصان دہ ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ ہم جتنا چاہیں اصولی موقف دنیا کے سامنے رکھیں، جتنا چاہے واویلا کریں، جتنا چاہے شور مچائیں، کچھ بھی بولیں کچھ بھی کہیں، لیکن کشمیر کی گیم بھارت کے ہاتھ میں ہے، بھارت نے آئینی ترامیم کرکے کشمیر کو اپنا حصہ بنالیا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کا اصولی موقف شنگھائی تعاون تنظیم کے سامنے رکھا، پاکستان آکر بھی انہوں نے مسئلہ کشمیر پر بات کی لیکن یہ بھی دیکھیے کہ اسی دن بھارت نے 2 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا اور اپنا غصہ انہوں نے وہاں اتارا۔ کیونکہ بھارت کا بس وہاں تک ہی چلتا ہے، پاکستان پر براہ راست حملہ کرنے کی جرأت تو وہ نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے وہ مظلوم اور نہتے کشمیریوں پر اپنا غصہ اتارتے ہیں۔ انہیں بھی معلوم ہے کہ پاکستانیوں کے دل میں کشمیریوں کےلیے کیا جذبات ہیں۔ حکمران نہ سہی عوام تو کشمیری بھائیوں کےلیے فکرمند رہتے ہیں۔
بھارتیوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ جب کشمیر میں ظلم و ستم کیا جاتا ہے تو پاکستانی کتنے غمگین ہوجاتے ہیں اور انتہائی بے بس اور لاچار ہونے کی وجہ سے یہ غم مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگر انسان کے ہاتھ میں کچھ ہو اور بدلہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر وہ غم اتنا زیادہ محسوس نہیں ہوتا لیکن جب انسان بدلہ بھی نہ لے سکتا ہو اور اپنے بھائیوں پر ظلم و ستم بھی ہوتے دیکھ رہا ہو تو غم کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے پاکستان سے شاید بدلہ لینے کےلیے اسی دن، جب پاکستان میں بھارت کے خلاف مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آواز بلند کی گئی، انہوں نے کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا ثبوت دیتے ہوئے 2 نوجوانوں کو شہید کردیا۔
پاکستان کے باتیں کرنے، شور مچانے یا کچھ بھی کہنے، کچھ بھی کرلینے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہونے والا اور نہ ہی بھارت کو کوئی خاطر خواہ فرق پڑنے والا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک فوجی مسئلہ ہے، جو فوج کے ذریعے ہی حل ہوگا۔ جب تک دونوں فوجیں آپس میں نہیں ٹکرائیں گی، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہماری 75 سالہ تاریخ یہی کہتی ہے۔ کیونکہ ہم نے فوج کے علاوہ ہر طریقہ آزما لیا ہے، ہم نے ہر طرح کی کوششیں کرلی ہیں۔ اقوام متحدہ میں ہم نے کتنا شور مچایا، عالمی سطح کا کوئی اجلاس ایسا نہیں جس میں ہم نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر نہ کیا ہو۔ کشمیر کےلیے ہم نے کتنے ایام مختص کر رکھے ہیں، ہم وہ بھی جوش و خروش سے مناتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، بیانات دیتے ہیں، امن کے نعرے لگاتے ہیں، اپنا موقف دنیا کے سامنے رکھتے ہیں، مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم نے ہر طرح کی کوششیں کرلیں اور ایک بار نہیں لاتعداد بار ہم نے یہ کوششیں کیں۔ لیکن ان کا کیا نتیجہ نکلا؟ یہی کہ پہلے بھارت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دے رکھی تھی اور اب کشمیر کی وہ خصوصی حیثیت بھی انہوں نے چھین لی اور کشمیر کو باقاعدہ طور پر اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ وہاں ہندوؤں کو شہریت دی جارہی ہے جس کا مقصد صرف کشمیری مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔
یہ صورتحال نہایت تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ مسئلہ کشمیر کبھی بھی اس طرح حل نہیں ہوگا جس طرح سے ہم حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک طرف سے فوج نے حملہ کیا ہوا ہے، 75 سال سے فوج وہاں پر تعینات ہے اور دوسری طرف سے صرف اپنا اصولی موقف بیان کرنے، زبانی کلامی بیانات داغنے سے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ صرف اور صرف دیوانے کا خواب ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کےلیے طاقت کی ضرورت ہے۔ اب ارباب اختیار کو یہ دیکھنا ہوگا کہ فوج کے ذریعے اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز
نوٹ:ادارےکا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔