اسلام آباد (ویب ڈیسک )وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مالی سال 24-2023 کےلیے 14 ہزار 460 ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔ بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ، گریڈ 17 اور اوپر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 30 فیصد اضافہ ہوگا۔ پنشنرز کی پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ، مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کردی گئی۔ ای او بی آئی کی پنشن 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی۔ قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیر خزانہ نے آغاز میں نواز شریف کی حکومت اور پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے دور حکومت میں شرح نمو 6.1 ایک فیصد جبکہ افراط زر 4 فیصد تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ ایشیا میں پہلے جبکہ دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔ انکا کہنا تھا کہ گلوبل واٹر ہاؤس کوپر کے مطابق پاکستان 2030 میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں سے ایک بننے جارہا تھا، روپیہ مستحکم اور زرمبادلہ زخائر تاریخ کی بلند ترین سطح 24 ارب ڈالر پر تھے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آج کی خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت ہے۔ پی ٹی آئی کی غلط معاشی پالیسی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، زرمبادلہ تیزی سے گر رہے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام کے حالات کو نازک صورتحال میں جان بوجھ کر خراب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب میں معزز ایوان کے سامنے رواں مالی سال 23-2022 کے نظر ثانی شدہ بجٹ کے اہم نکات پیش کرتا ہوں۔
وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں FBR کے محاصل 7 ہزار 200 ارب روپے کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے۔ جس میں صوبوں کا حصہ 4,129 ارب روپے ہوگا، وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 618 ارب روپے ہونے کی توقع ہے۔ وفاق کے محاصل 4 ہزار 689 ارب روپے ہوں گے۔ انکا کہنا تھا کہ کل اخراجات کا تخمینہ 11,090 ارب روپے ہے، PSDP کی مد میں اخراجات 567 ارب روپے تک رہنے کا امکان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دفاع پر کم و بیش ایک ہزار 510 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ سول حکومت کے مجموعی اخراجات 553 ارب، پنشن پر 654 ارب روپے سبسڈیز کی مد میں ایک ہزار 93 ارب روپے اور گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 90 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ وفاقی وزیر نے آئندہ مالی سال کے اعداد و شمار سے متعلق کہا کہ اگلے مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ افراط زر کی شرح اندازاً 21 فیصد تک ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور Primary Surplus جی ڈی پی کا 0.4 فیصد ہوگا، اگلے مالی سال کے لیے برآمدات ہدف 30 ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اگلے سال FBR محاصل کا تخمینہ 9,200 ارب روپے ہے جس میں صوبوں کا حصہ 5,276 ارب روپے ہوگا۔ وفاقی نان ٹیکس محصولات 2,963 ارب روپے ہوں گے۔ وفاقی حکومت کی کل آمدن 6,887 ارب روپے ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14,460 ارب روپے ہے جس میں سے Interest payment پر 7,303 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ انکا کہنا تھا کہ اگلے سال PSDP کے لیے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ Public Private Partnership کے ذریعے 200 ارب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 1,150 ارب روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ ملکی دفاع کے لیے 1,804 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات کےلیے 714 ارب روپے مہیا کیے جائیں گے، پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ان کہنا تھا کہ بجلی، گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے 1,074 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، HEC ،BISP، ریلویز اور دیگر محکموں کے لیے 1,464 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ ورکنگ جنرلسٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ آرٹسٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں، اسپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔ پینشن کے مستقبل کے اخراجات کی Liability پورا کرنے کے لیے پنشن فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP)
انہوں نے بتایا کہ ترقیاتی بجٹ ملکی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے ذریعے معیشت کی استعداد کار میں اضافہ، بہتر انفرااسٹرا کچر کی فراہمی، افرادی ترقی،Regional Equity اور انویسٹمنٹ میں اضافے جیسے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اگلے مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کےلیے 1,150 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1,559 ارب روپے ہے۔ اس طرح قومی سطح پر ترقیاتی پروگرام کا حجم 2,709 ارب روپے ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ رقم GDP کا صرف 2.6 فیصد ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے پچھلے دور میں ترقیاتی اخراجات کا حجم GDP کے تقریباً 5 فیصد تک پہنچا دیا تھا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ ترقیاتی بجٹ ملکی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے ذریعے معیشت کی استعداد کار میں اضافہ، بہتر انفرااسٹرا کچر کی فراہمی، افرادی ترقی،Regional Equity اور انویسٹمنٹ میں اضافے جیسے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اگلے مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کےلیے 1,150 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1,559 ارب روپے ہے۔ اس طرح قومی سطح پر ترقیاتی پروگرام کا حجم 2,709 ارب روپے ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ رقم GDP کا صرف 2.6 فیصد ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے پچھلے دور میں ترقیاتی اخراجات کا حجم GDP کے تقریباً 5 فیصد تک پہنچا دیا تھا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ اگلے مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے مالی سال برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر، ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ایگرو انڈسٹری کو رعایتی قرض کی فراہمی کےلیے 5 ارب روپے مختص کیے ہیں،۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس ایم ایز، زراعت، تعمیراتی شعبے سے بینکوں کی آمدنی پر ٹیکس 46 سے کم کر کے 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ افراط زر کی شرح اندازاً 21 فیصد تک ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور پرائمری سر پلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد ہوگا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ میں صنعتی اور برآمدی شعبے پر توجہ دی ہے، اگلے مالی سال کے لیے برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلے مالی سال کے لیے ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ٹیکسٹائل، لیدر مصنوعات کے ٹیئر ون ریٹیلرز پر جی ایس ٹی کی شرح 12 سے بڑھا کر 15 فیصد کی جا رہی ہے۔ یہ ٹیکس برانڈڈ ٹیکسٹائل اینڈ لیدر کے قیمتی ملبوسات پر لیا جائے گا۔ انکا کہنا تھا کہ سول حکومت کے مجموعی اخراجات 553 ارب، پینشن پر 654 ارب خرچ ہوں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سبسڈیز کی مد میں 1093 ارب اور گرانٹس کی مد میں 1090 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کم و بیش 3 ہزار غیر ملکی گھریلو خادم کام کر رہے ہیں، 6 ہزار ڈالر سالانہ تنخواہ لینے والے غیر ملکی گھریلو خادم پر 2 لاکھ روپے کی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس عائد ہوگا۔ انکا کہنا تھا کہ آئی ٹی ایکسپوٹرز کو 50 ہزار ڈالر کا ہاورڈ ویئر ڈیوٹی فری منگوانے کی اجازت ہوگی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ اسلام آباد میں مزدور کی کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے کی جارہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پینشن میں 17.5 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔