Breaking News
Home / پاکستان / چیئرمین پی ٹی آئی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت سے 5 مقدمات میں ضمانت کنفرم

چیئرمین پی ٹی آئی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت سے 5 مقدمات میں ضمانت کنفرم

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف جوڈیشل کمپلیکس میں ہنگامہ آرائی سمیت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں درج 8 مقدمات میں سے 5 مقدمات میں ضمانت کنفرم اور 3 میں ضمانت میں 4 جولائی تک توسیع کردی گئی۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن کی زیر سربراہی چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ تھانہ سنگجانی کا مقدمہ سب سے پرانا ہے، یہ مقدمہ 2022 میں درج ہوا لہٰذا سب سے پہلے میں مقدمات کے پس منظر پر بات کرنا چاہوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی حکومت جانے کے بعد سیاسی انتقام بنانے کا سلسلہ شروع ہوا، سیاسی حریفوں نے درخواست گزار سے بدلہ لینے کے لیے یہ سب کیا اور درخواست گزار اور ان کی پارٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار اور ان کی پارٹی کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے اور شہباز گل کا پہلا کیس تھا جس میں دوراب حراست تشدد کی بات سامنے آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اور ان کے وکلا کا کنڈکٹ انتہائی مثبت ہے، درخواست گزار کی ہمت غیر معمولی ہے اور کوئی جواں سال لڑکا بھی اتنا نہیں لڑ سکتا، جب بھی مقدمہ درج ہوتا ہے وہ آپ کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ درخواست گزار 71 سال کے ہوچکے ہیں، ان کی عمر ان کو اس ریلیف کا حقدار بناتی ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی عدالت سے انصاف چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا رویہ عدالت کے سامنے واضح ہے، انسدادِ دہشت گردی عدالت صرف دہشت گردوں کے لیے مختص ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دہشت گردی کی دفعہ ہٹانے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود درخواست گزار کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں صرف حکومتی وکیل موجود ہیں، مقدمات درج کروانے والے موجود نہیں، عدالت کا وقت بچائیں، بتائیں کتنے کیسز میں بے گناہ ہیں، میں ان پر دلائل نہ دوں۔ وکیل صفائی نے کہا کہ کوئی پرائیویٹ مدعی نہیں، تمام کیسز میں مدعی صرف پولیس ہے، پراسیکیوشن بتادے چیئرمین پی ٹی آئی کی کس کیس میں گرفتاری درکار ہے۔ اس موقع پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی 5 مقدمات میں شامل تفتیش ہوئے، دیگر میں نہیں ہوئے۔ اس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یعنی پراسیکیوشن کو تمام کیسز میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری درکار ہے، وزارت عظمیٰ چھوڑنے سے قبل عمران خان کا کیا کریمینل ریکارڈ ہے؟ بتایا جائے۔ صرف آج کے دن چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف 17 فوجداری کیسز کی سماعتیں مقرر ہیں، یہ مقدمات ایسے سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ان کا کہنا تھا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 154 اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات کا بیہمانہ استعمال ہورہا ہے، اسلام آباد پولیس جو ہم نے 2023 میں دیکھی ہے اس کو ہم نہیں جانتے، اس کا ایک بہت زبردست تاثر ہوا کرتا تھا، انہوں نے حدیں ہی پار کردی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کے علاوہ اپنے گھر سے نہیں نکلے، ان کے خلاف مقدمات تب درج ہوئے جب وہ آپ کی عدالت کے باہر کھڑے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس دیکھتی تھی کہ درخواست گزار کب گھر سے باہر آتے ہیں، تب پرچہ دیں گے، درخواست گزار اگر 20 سے 25 بار گھر سے نکلیں ہیں تو ضمانت لینے کے لیے نکلے ہیں، 2022 سے کوشش ہے کہ درخواست گزار کو گرفتار کرلیا جائے، بتا دیں کہ ایک سال میں 160 مقدمات آج تک آپ نے کس کے خلاف درج کیے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے مزید کہا کہ جب تک سیاسی جنگ چلتی رہے گی یہ مقدمات چلتے رہیں گے، جب یہ جنگ ختم ہوجائے گی تب یہ مقدمات بھی ختم ہوجائیں گے، جب تک ختم نہیں ہوتے تب تک ہم آپ کی عدالت آئے ہیں کہ گرفتاری سے بچایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس بدنیتی کے ساتھ ساتھ عدالتوں کے متعدد فیصلوں کی بھی خلاف ورزی کررہی ہے، قتل، بم، ڈکیتی کے مقدموں میں پولیس مدعی بنتی ہی نہیں، ہمارے کیسز میں پولیس نے کہا مدعی ہم بنیں گے، ظل شاہ قتل ہوا، پولیس نے کہا مدعی ہم بنیں گے، درخواست گزار کو گولی لگی، پولیس آگئی کہ مدعی ہم بنیں گے، میں آپ کے سامنے پولیس کا رویہ رکھ رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات کے غلط استعمال سے پولیس پر عوام کا اعتماد کم ہوتا ہے، میں کہہ رہا ہوں میرے سامنے کیسز سنیں، پراسیکیوٹر کہہ رہے ہیں نہیں فلاں نہیں، فلاں سنیں۔ پراسیکیوٹر نے اس پر کہا کہ درخواست گزار شامل تفتیش ہوں، اگر تحقیقات میں بے گناہ ثابت ہوئے تو ڈسچارج کر دیں گے۔ عدالت نے پراسیکیورٹر سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس جب درخواست گزار آئے تھے تو آپ نے تمام مقدمات میں کیوں سوال نہیں کیے؟۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست گزار تھک گئے تھے، انہوں نے درخواست کی کہ میں اب تھک گیا ہوں، ملتوی کیا جائے، جن کیسز میں آپ کا ریلیف بنتا ہے، یہ عدالت آپ کو ریلیف دے رہی ہے۔ وکیل صفائی سلمان صفدر نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ دونوں نے درخواست گزار کی ضمانتوں کی درخواستیں سنی ہیں، عدالتوں نے کہا آپ جا کر شامل تفتیش کرتے ہیں تو شاید 5 ہزار کا خرچہ آئے، اگر درخواست گزار کو بلاتے ہیں تو سیکیورٹی اور دیگر انتظامات پر 50 لاکھ لگ سکتے ہیں، پہلی بار درخواست گزار کی وڈیو لنک پر حاضریاں لگیں۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کے خلاف اسلام آباد میں پانچ مقدمات درج ہوتے ہیں، ہمیں لاہور ہائی کورٹ سے 7 دنوں کی ضمانت ملتی ہے، ہم اگلے ہی دن آپ کے سامنے پیش ہونے کے لیے گھر سے نکل آئے، جب یہاں پہنچے تو اندر ہی نہیں آنے دیا گیا، شیلنگ شروع ہوگئی اور امن و امان کی صورتحال پیدا ہوگئی، درخواست گزار 40 منٹ تک باہر گیٹ پر انتظار کرتا رہا۔اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہمیں دوسری عدالت جا کر حاضری لگانے کی اجازت دی جائے جس پر جج راجا جواب عباس حسن نے کہا کہ آپ پہلے یہاں دلائل مکمل کر لیں، بعد میں دیگر عدالتوں میں جائیں۔

پراسیکیوٹر نے بھی اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق انسدادِ دہشت گردی عدالت کو فوقیت حاصل ہے، اگر ہائی کورٹ میں کیس ہوتا تو الگ بات تھی لیکن آپ تو سیشن کورٹ جا رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ میں بھی کوئی پرنسپل میٹر نہ ہو تو انسدادِ دہشت گردی عدالت پہلے ہے تاہم آپ اگر کہتے ہیں تو وقفہ کر دیتے ہیں، آپ پیش ہو آئیں۔ عدالت نے اس کے بعد سماعت میں 10 سے 15 منٹ تک وقفہ کردیا۔ کچھ دیر بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے کہا کہ ان مقدمات کی فہرست دیں کہ کن میں شامل تفتیش ہوئے اور کن میں نہیں جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ درخواست گزار مجموعی طور پر 5 مقدمات میں شامل تفتیش ہوچکے ہیں۔ جج راجا جواد عباس نے کہا کہ باقی دونوں ججز نے مجھے 4 جولائی کی تاریخ بتا دی ہے، اس لیے ہم ایک دن سماعت رکھتے ہیں کیونکہ سیکیورٹی انتظامات اور دیگر معاملات کرنے ہوتے ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ہمیں 17 کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانتیں ملیں، 18 کو ہم آپ کے پاس آگئے، 5 مقدمات تھے جن میں ہم نے آپ سے ضمانت لینی تھی، ہم یہاں آئے تو ہمیں اندر نہیں آنے دیا گیا، دو مزید مقدمات درج کرلیے گئے، ہمیں ضمانتوں کے بغیر ہی واپس جانا پڑا، وہ تو شکر ہے ہمارے پاس حفاظتی ضمانت تھی۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کو دو بار حفاظتی ضمانتیں دی گئیں، جو کہ پہلی بار ہوا، یہ چاہتے تھے ہم آپ تک پہنچ نہ سکیں، انصاف نہ لیں سکیں، جو ضمانت لینے آتا ہے وہ حملہ کرنے نہیں آتا، اس کا رویہ مختلف ہوتا ہے، جوڈیشل کمپلیکس میں جو ہوا اس پر ہم نے بوجھل دل کے ساتھ پہلی بار فیصلہ کیا کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نہیں جائیں گے اور سیدھا ہائی کورٹ جائیں گے۔ وکیل صفائی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہم آپ کی ضمانتیں رکھ لیتے ہیں، حالات ٹھیک ہوئے تو انسدادِ دہشت گردی عدالت بھیج دیں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 3 مہینے ہماری ضمانتیں اپنے پاس رکھے رکھیں۔

اس کے بعد وکیل سلمان صفدر نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات کی ایف آئی آرز پڑھنا شروع کردیں۔ انہوں نے کہا کہ مقدمے میں ایک لائن ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ایما پر، اس مقدمے میں دفعہ 109 کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، دوسرے لفظوں میں درخواست گزار موقع پر موجود نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں اسد عمر اور دیگر کی ضمانتیں ہو چکی ہیں، صرف گھر سے نکلنا اور آپ کی عدالت تک آنا، یا ہائی کورٹ آنا، اس کے علاوہ اور کوئی پیٹرن نہیں رہا، 109 میں بہت سی چیزیں آتی ہیں، انہوں نے صرف ایک لفظ ایما کا استعمال کیا، درخواست گزار نے کبھی اپنے کارکنوں کو قانون کو ہاتھ میں لینے کا نہیں کہا۔ اس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ تو جمہوریت ہی ختم کردیں گے، اگر کسی بھی پارٹی کا کوئی کارکن کچھ کرے گا تو کیا یہ سربراہ کے خلاف مقدمہ کردیں گے؟ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں احتجاج ہوتا ہے اور پرامن احتجاج میرا حق ہے۔ سلمان صفدر نے دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق ایما کے واضح ثبوت موجود ہونے چاہیئں، درخواست گزار کی کوئی متحرک شمولیت نہیں ہے، درخواست گزار موقع پر موجود بھی نہیں تھے۔ سلمان صفدر نے کہا کہ ہم جوڈیشل کمپلیکس عدالتی کارروائی کیلئے آتے تھے، حملہ کرنے نہیں، ہمیشہ پولیس کی جانب سے پرتشدد رویہ اختیار کیا جاتا رہا، نہ کسی کو ڈنڈا دیا، نہ کسی کو پیٹرول بم پکڑایا، کسی بھی پولیس افسر پر حملہ کرنے کا کوئی الزام نہیں ہے، درخواست گزار کا اس مقدمے میں کیا کردار ہے، کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

اس پر جج نے کہا کہ ہجوم کی حد تک بات درست ہوسکتی ہے، پر جو بندہ پیشی کے لیے آرہا ہے اس نے تو آنا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہماری پولیس نے پراسیکیوشن ہائی جیک کرلی، ویسے عدالت کا اختیار بھی چھین لیا، آپ پرچہ دیتے، یہ کون ہوتے ہیں مقدمہ درج کرنے والے؟۔ پراسیکیوٹر نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ سلمان صفدر کے تمام کیسز میں دلائل ایک ہی ہیں، 2 کیسز میں 109 نہیں ہے، باقی میں ہے۔ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ میں ابھی آپ کو دلائل میں ورائٹی دیتا ہوں، جو الزامات ہیں وہ بڑے غیر واضح سے ہیں، ہم انصاف کے لیے آئے ہیں، کوئی حملہ کرنے نہیں، انہوں نے ایک بار درخواست گزار کی گرفتاری کی، اس گرفتاری کو سپریم کورٹ نے ریورس کیا، میں نے ان کو بھیجا تھا جائیں بائیو میٹرک کروائیں۔ اس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے وکیل صفائی سے سوال کیا کہ آپ ساتھ کیوں نہیں گئے تھے؟، جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ میرا منشی گیا تھا تو اس کو ڈنڈے پڑے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف 5 مقدمات میں سلمان صفدر نے دلائل مکمل کر لیے اور دیگر 3 مقدمات میں دلائل شروع کیے۔ جج نے استفسار کیا کہ اس مقدمے میں درخواست گزار کا نام کہاں ہے؟ درخواست گزار کی پیشی کا ذکر ہے، بطور ملزم نام نہیں ہے، پیش تو انہوں نے ہونا ہی ہے، بطور ملزم نام دکھائیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کا بطور ملزم نام ہی موجود نہیں۔ کچھ دیر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سینیئر پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کی جانب سے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی ہے اور تحقیقات کے دوران درخواست گزار معصوم ثابت نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کو بدنیتی کے الزام لگانے سے پہلے بدنیتی کے ثبوت دینا ہوں گے، ایف آئی آر میں تفصیلات نہ ہونا اس لیے ہے کہ ایف آئی آر کوئی انسائیکلوپیڈیا نہیں ہوتی، ایف آئی آر قانونی کارروائی کے آغاز کے لیے ہوتی ہے، ایف آئی آر میں تفصیلات کے نہ ہونے سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر شریک ملزمان اور کارکنان نے چیئرمین پی ٹی آئی کے کہنے پر مختلف اوقات اور مقامات پر اشتعال انگیزی کی، چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی میں کمانڈنگ اتھارٹی حاصل ہے، وہ جو کہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چشم دید گواہوں کے بیانات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی گاڑی میں بیٹھ کر کارکنوں کو ہدایات دے رہے تھے، درخواست گزار موجود ہونے کے باوجود کارکنوں کو جرائم کرنے سے نہیں روک رہے تھے۔

پراسیکیوٹر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کی موجودگی میں جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ کیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس میں عدالت نے واضح کیا کہ ان مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات لگتی ہیں، کیا قانون میں کسی کو عمر رسیدہ ہونے کے باعث غیر معمولی ریلیف فراہم کرنے کا ذکر ہے؟۔ ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی موجودگی میں جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ کیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس میں عدالت نے واضح کیا کہ ان مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات لگتی ہے۔ انہوں نے مختلف عمر رسیدہ افراد کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ کیا قانون میں کسی کو عمر رسیدہ ہونے کے باعث غیر معمولی ریلیف فراہم کرنے کا ذکر ہے؟ جوڈیشل کمپلیکس پر حملے کے بعد درخواست گزار اسلام آباد ہائی کورٹ پر چڑھ دوڑا اور دو بار ایک جرم کا ارتکاب کیا، کیا اس پر درخواست گزار کو غیر معمولی ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے؟۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست گزار نے پہلے بھی ضمانت کا غلط استعمال کیا، درخواست گزار کسی بھی غیرمعمولی ریلیف کے مستحق نہیں ہیں اور استدعا کی کہ درخواست گزار کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کی جائیں۔ عمران خان روسٹرم پر آگئے اور پراسیکیوٹرز نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں درخواست گزار کو حکم دیا کہ امن و امان کی صورتحال پیدا نہ کی جائے لیکن انہوں نے امن و امان کی صورتحال پیدا کی، انہوں نے کہا مجھے قتل کردیا جائے گا، گرفتار کرلیا جائے گا، لوگ گھروں سے نکلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک جتھا لے کر جوڈیشل کمپلیکس پہنچے، امن و امان کی صورتحال پیدا کی، ان کے ٹوئٹٹس ریکارڈ پر موجود ہیں، پولیس نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا، کسی پر فائرنگ کی نہ تشدد کا نشانہ بنایا لیکن پولیس سے بندوق چھیننے کی کوشش بھی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس والوں نے گریس کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائرنگ نہیں کی، اگر فائرنگ ہو جاتی تو ایک بڑا سانحہ ہوسکتا تھا۔ عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ یہ کوئی بدنیتی نہیں، 50 سال سے قوم مجھے جانتی ہے، مجھ پر ایک کیس بھی نہیں تھا، ہم انتشار نہیں الیکشن چاہ رہے تھے، میں نے جوش خطابت میں کہا آئی جی صاحب اور جسٹس ذیبا آپ پر لیگل ایکشن لیں گے لیکن ہدایات دی ہوئی تھیں کہ آپ نے کسی انتشار کا حصہ نہیں بننا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ریلی نکالتے ہیں، ایک دم سیکشن 144 لگ جاتا ہے، لوگوں پر حملہ ہو جاتا ہے، میں اسی وقت ریلی کینسل کرتا ہوں تاکہ انتشار نہ ہو، پھر یہ وارنٹ لے کر میرے گھر آتے ہیں، 24 گھنٹے میرا گھر حملے کی زد میں رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں ہمیں پتا نہیں کہاں سے لوگ آئے، پولیس نے ان پر شیلنگ شروع کردی، اوپر سے پولیس والے پتھر پھینک رہے تھے، میں تو ضمانت کرانے آیا تھا لیکن ہمیں رپورٹ ملی کہ اندر ماحول ہی کچھ اور بنا ہوا ہے اور پتا چلا کہ آئی ایس آئی نے جوڈیشل کمپلیکس کا فلور ٹیک اوور کر رکھا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ 9 مئی کی بھی آزاد انکوائری ہوگی تو پتا چلے گا، ہمارے پاس وڈیوز ہیں کہ پولیس نے خود اپنی گاڑیاں جلائیں۔

اس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اپنی کرسی پر جا کر بیٹھ گئے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ شریک ملزمان نے اعتراف کیا کہ اشتعال انگیزی کی ہدایات چیئرمین پی ٹی آئی نے دیں جبکہ یاسمین راشد کی آڈیو آن ریکارڈ ہے۔ سلمان صفدر نے مزید کہا کہ ہم نے کیس ختم کے لیے سو دفعہ کاغذ عدالت کو دیے لیکن انہوں نے کیس بنانے کے لیے کوئی کاغذات، ریکارڈ عدالت کو نہیں دیا۔ اس کے بعد انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیر اعظم کی 5 مقدمات میں ضمانت کنفرم اور 3 مقدمات میں ضمانت میں 4 جولائی تک توسیع کردی۔

Check Also

پاسپورٹس میں سابقہ شوہر کے نام کا باکس بھی ہو گا: ڈی جی پاسپورٹس

ڈی جی پاسپورٹس مصطفیٰ جمال کا کہنا ہے کہ شادی شدہ خاتون کا پاسپورٹ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے