(نسیم شاہد) اب یہ بھی کوئی خبر ہے کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے معاہدے کے بارے میں پوچھے گئے۔ بھائی سب کچھ تو واضح ہے کہ معاہدہ نہیں ہو رہا، آئی ایم ایف اکڑا پڑا ہے، نرم ہونے کو تیار نہیں پھر ایسے سوالات کیوں پوچھتے ہو، یہ تو صرف چھیڑ چھاڑ کرنے والی بات ہے اور ایسی چھیڑ چھاڑپر بندہ زچ ہو کر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اسحاق ڈار کے بارے میں تو پہلے ہی سب کو پتہ ہے کہ وہ مزاج کے ذرا سخت ہیں انہوں نے وزیرخزانہ بنتے ہی ڈالر بیچنے والوں کو تڑی لگا دی تھی کہ ڈالر دو سو روپے سے نیچے لے آئیں ورنہ مجھے پتہ ہے کیسے نیچے لانا ہے۔ پھر سب نے دیکھا کہ ڈالر کیسے ایک بار نیچے آیا اور پھر راکٹ کی رفتار سے اوپر چلا گیا، اس وقت بھی جب صحافی اسحاق ڈار سے ڈالر کے بارے میں سوال کرتے تھے تو وہ ناراض ہو جاتے تھے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ سیاستدان کو اتنا گرم مزاج نہیں ہونا چاہیے لیکن اسحاق ڈار تو سیاستدان ہیں ہی نہیں، وہ تو ٹیکنو کریٹ ہیں۔انہوں نے آج تک کسی قومی الیکشن میں حصہ نہیں لیا، نوازشریف کی مہربانی سے سینیٹر بن جاتے ہیں اور انہی کی مہربانی سے وزارت خزانہ بھی سنبھال لیتے ہیں۔ یہ اسحاق ڈار کا غصہ ہی تھا جس نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے دیا، جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ آئی ایم ایف معاہدہ نہیں کرتا تو نہ کرے ہمیں بھی کوئی خوف نہیں۔ دراصل انہیں جب مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر وزیرخزانہ بنایا گیا تھا تو یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے ٹارزن کی واپسی ہو رہی ہے۔ جیسے اب سارے معاشی مسئلے حل ہو جائیں گے،
حالانکہ ایسا سوچنے والوں کو اسحاق ڈار کے ماضی کی کارکردگی کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تھا انہوں نے کس دور میں معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا، قرض کی مے پیتے رہے اور معیشت چلاتے رہے، اس بار تو اُن کی کارکردگی کا سارا بھرم ہی جاتا رہا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا بجٹ پیش کر دیا ہے جو حقائق سے لگاہی نہیں کھاتا۔ آمدنی 50فیصد اور خرچ سو فیصد دکھا کر وہ اسے ایک تاریخی بجٹ قرار دے رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس پر بھی وہ آئی ایم ایف کو مطمئن نہیں کر سکے اور اس کے اعتراض اپنی جگہ موجود ہیں۔ اب وزارت خزانہ لاکھ کہتی رہے کہ موجودہ بجٹ سے آئی ایم ایف کے 9ویں جائزے کا کوئی تعلق نہیں مگر یہ فیصلہ تو آئی ایم ایف نے کرنا ہے، وزارت خزانہ کیسے کر سکتی ہے۔ شاید یہی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے وزیرخزانہ اسحاق ڈارکا صبر و ضبط جواب دے گیا ہے، ایسے میں صحافی نے پھر آئی ایم ایف کے معاہدے بارے سوال پوچھ کر گویا جلتی پر تیل ڈالا۔ ایک عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ موجودہ حکومت معاشی حوالے سے کچھ نہیں کر سکی۔ اس کے پاس ہر بات کا جواب یہ ہے کہ آئی ایم ایف نہیں مان رہا۔ وزیراعظم شہبازشریف تو عوامی زبان میں بھی لوگوں کو سمجھاتے رہے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کے سامنے الٹے سیدھے ہو کر بھی دیکھ لیا ہے، مگر وہ مان نہیں رہا۔ اب پھر فرانس میں وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ملاقات کی ہے اور یقین دلایا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ شاید اس ملاقات میں منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف نے یہ سوال ضرور اٹھایا ہو کہ آپ کی حکومت تو دو ماہ بعد ختم ہو رہی ہے، پھر آپ کیسے یقین دہانی کرا رہے ہیں۔
اس سوال کا جواب بھی شہبازشریف نے ضرور بہت مدلل دیا ہوگا کہ اگلی حکومت بھی ہماری ہو گی اور ہم اس معاہدے کو جاری رکھیں گے لیکن صاحبو! آئی ایم ایف والے بھی بہت تیز ہیں اُڑتی چڑیا کے پُر گن لیتے ہیں وہ اُس مہنگائی سے ضرور آگاہ ہوں گے جس نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ عوام کا ایک ایک دن مشکل گزر رہا ہے ایسے میں وہ بھلا کیوں چاہیں گے کہ دوبارہ اسی سیٹ اپ کو لے آئیں، جس نے گزشتہ پندرہ ماہ میں معیشت کو زمین بوس کر دیا ہے۔ کب سے سنتے آ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں پلان بی موجود ہے۔ یہ پلان بی آخر ہے کیااور کب نافذ ہوگا۔ اس بارے میں بھی کوئی صحافی اسحاق ڈار سے سوال پوچھے گا تو اسے ان کے غیض و غضب کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔ اس لئے کوئی ان سے معیشت یا آئی ایم ایف کے بارے میں سوال پوچھنے کی غلطی نہ کرے۔ ویسے بھی اب دیکھا جائے تو ہماری سیاست میں کچھ نئی روایات آ گئی ہیں۔ سب سے بڑی روایت تو یہ آئی ہے کہ جس کسی کو گرفتار کیا جاتا ہے یا وہ کسی مقدمے کی زد میں آتا ہے تو پہلی فرصت میں اسے پریس کانفرنس کی اشد طلب محسوس ہوتی ہے۔ حال ہی میں جب میں نے دیکھا کہ سابق وزیر غلام سرور خان اور ہمایوں اختر نے پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے
اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ 9مئی کے بعد پی ٹی آئی میں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تو مجھے خیال آیا کہ 9مئی کو گزرے ڈیڑھ ماہ ہونے کو آیا ہے، کیا ان دونوں صاحبان کو اچانک یہ الہام ہوا ہے کہ قومی تنصیبات پر حملے ہوئے تھے جو ملک دشمنی تھی؟ یہ لوگ اتنے دن کہاں بیٹھ کے سوچ بچار کرتے رہے اور جب اچانک کسی مقدمے یا پولیس چھاپے سے ان کی آنکھ کھلی تو انہیں احساس ہوا کہ 9مئی کے واقعات کی مذمت کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ سب نے دیکھا کہ 9مئی کو جو کچھ ہوا اس نے پورے ملک میں تشویش اور غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ اسے ملک کے ساتھ ایک گھٹیا حرکت قرار دیا اور پاک فوج کی حمایت میں شہر شہر مظاہرے ہوئے۔ اتنی تاخیر سے ان واقعات کی مذمت کرنے والے یقینا سیاسی نظریہء ضرورت کے تحت ایسا کررہے ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے ایک معاشی پلان دیا ہے جس کے تحت اربوں روپے کی سرمایہ کاری کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ معاشی و سرمایہ کاری فیسلی ٹیشن سنٹر کا قیام اس لئے ایک بہت اہم پیش رفت ہے کہ اس میں آرمی چیف بھی ایک رکن کی حیثیت سے موجود ہیں۔
بعض لوگوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ ملک کی معاشی پالیسیوں سے فوج کا کیا تعلق ہے؟ میرا خیال ہے پاکستان کے مخصوص تناظر میں فوج کے کردار کی وجہ سے پالیسیوں میں تسلسل لایا جا سکتا ہے، یہ بلواسطہ طور پر آئی ایم ایف کے لئے بھی ایک اشارہ ہے کہ اب جو معاہدہ ہوگا اس کی ضمانت ریاست کے ادارے بھی دیں گے۔ اگر اس نئی معاشی پالیسی پر واقعی پوری طرح عملدرآمد ہو جاتا ہے تو ملک میں ایک بڑی سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔ حکومتی حلقے اسے معاشی بحالی کا قومی منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ اب اس میں اگر فوج کے سربراہ کو شامل نہ کیا جاتا تو مستقبل قریب میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ اس منصوبے پر بھی گرد پڑ سکتی تھی،
تاہم فوج کے اس میں بطور ایک اسٹیک ہولڈر موجود ہونے سے اس منصوبے پر عمل جاری رہے گا، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان خطے کا واحد ملک ہے جہاں بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں حد درجہ رکاوٹیں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار بھارت، سری لنکا، سنگا پور یا بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اگر انہیں سازگار ماحول اور فرینڈلی فضا فراہم کر دی جاتی ہے تو یہ ملک ان کے لئے آئیڈیل ہے، کیونکہ یہاں ہر نوع کی مین پاور دستیاب ہے اور تمام موسم بھی موجود ہیں۔ اسحاق ڈار کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن اگر وہ ہر سوال کا جواب اسی انداز میں دیں گے جو انہوں نے صحافی کو دیا تو یہی لگے کہ اب حکومت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہ گیا۔بشکریہ ڈیلی پاکستان