Breaking News
Home / پاکستان / لاپتا افراد سے متعلق قائم کمیشن کے پاس رواں برس جنوری سے جون تک جبری گمشدگی کے 533 نئے کیسز درج

لاپتا افراد سے متعلق قائم کمیشن کے پاس رواں برس جنوری سے جون تک جبری گمشدگی کے 533 نئے کیسز درج

لاپتا افراد سے متعلق قائم کمیشن کے پاس رواں برس جنوری سے جون تک جبری گمشدگی کے 533 نئے کیسز درج کرائے گئے ہیں۔ ملک میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی کمیشن نے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ جنوری تا جون 2023 میں لاپتا افراد کے 533 نئے مقدمات درج ہوئے۔ کمیشن کے مطابق رواں سال مارچ میں لاپتا افراد کے سب سے زیادہ 141 نئے کیسز درج ہوئے۔ کمیشن کے مطابق جنوری میں 91، فروری میں 99 اور اپریل میں 91 لاپتا افراد کے نئے کیسز درج ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق مئی کے مہینے میں 82 جبکہ جون کے مہینے میں 29 کیسز درج ہوئے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال جون میں 59 لاپتا افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے جبکہ لاپتا افراد کے کُل 9 ہزار 736 کیسز کمیشن کے پاس درج ہو چکے ہیں اور کمیشن نے اب تک 7 ہزار 439 کیسز کو نمٹایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2 ہزار 297 لاپتا افراد کے کیسز پر کام جاری ہے۔

 

لاپتا افراد کا معاملہ کیا ہے؟
واضح رہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کا معاملہ بہت سنگین ہے، ان افراد کے اہلِ خانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو جبری طور پر سیکیورٹی ادارے لے جاتے ہیں اور پھر انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی متعدد مرتبہ اس معاملے پر آواز اٹھاتی اور لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات پر وزارت داخلہ نے 2011 میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں اس وقت کے آئی جی خیبرپختونخوا پر مشتمل 2 رکنی کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن کے سربراہ اب بھی جسٹس (ر) جاوید اقبال ہی ہیں جبکہ اراکین میں جسٹس (ر) فضل الرحمٰن، ریٹائرڈ آئی جی کے پی محمد شریف ورک اور جسٹس (ر) ضیا پرویز شامل ہیں۔ جنوری 2019 میں حکومت کی جانب سے ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا، جس کے تحت جو افراد، شہریوں کے اغوا میں ملوث ہوں گے ان پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی پی) کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

 

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کسی فرد یا تنظیم کی جانب سے جبری طور پر کسی کو لاپتا کرنے کی کوئی بھی کوشش کو جرم قرار دینے کے لیے پی پی سی میں ترمیم کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس سے قبل جولائی 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ نامعلوم مقامات سے شہریوں کی گمشدگی اور اغوا میں ملوث شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب 2021 میں قومی اسمبلی میں پیش کردہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا بل تاریخی قرار دیتے ہوئے سراہے جانے کے بعد تاحال التوا کا شکار ہے کیونکہ مجوزہ قانون کو جن قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے اس سے نکلنے کے بارے میں آئین خاموش ہے۔

Check Also

پاسپورٹس میں سابقہ شوہر کے نام کا باکس بھی ہو گا: ڈی جی پاسپورٹس

ڈی جی پاسپورٹس مصطفیٰ جمال کا کہنا ہے کہ شادی شدہ خاتون کا پاسپورٹ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے