Breaking News
Home / پاکستان / لاہور ٹریفک پولیس کے پی ایچ ڈی وارڈنز، ‘سب سے زیادہ پڑھی لکھی فورس ہے’

لاہور ٹریفک پولیس کے پی ایچ ڈی وارڈنز، ‘سب سے زیادہ پڑھی لکھی فورس ہے’

لاہور میں سٹی ٹریفک پولیس کی جانب سے موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہنانے کی مہم تیز کر دی گئی ہے۔ جگہ جگہ ٹریفک پولیس اہلکار ناکہ لگائے کھڑے ہیں۔ اگر آپ بغیر ہیلمٹ کے بائیک چلا رہے ہیں تو آپ کسی صورت ان کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔آپ چاہیں صبح سویرے سڑک پر نکلیں یا رات کے اندھیرے میں گاڑی چلائیں آپ کا واسطہ ٹریفک اہلکاروں سے ضرور پڑے گا۔ رات کے اندھیرے میں ٹریفک وارڈن کی ڈیوٹی انجام دینے والوں میں اکثریت ان اہلکاروں کی ہوتی ہے جو دن کو مختلف جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ پنجاب کے دور درواز اضلاع سے آئے ان وارڈنز نے لاہور کے تعلیمی ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کی بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بھی نکھارا۔ سنہ 2006 میں بطور سب انسپکٹر ٹریفک وارڈن بھرتی ہونے والے اوکاڑہ کے رہائشی ڈاکٹر محمد عابد نذیر انہی وارڈنز میں سے ہیں جنہوں نے دوران ملازمت جامعہ پنجاب سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے ا پنے مضامین کا انتخاب اپنے پیشے کو دیکھتے ہوئے کیا اور کریمنالوجی سمیت قانون، امن اور تضاد پر تحقیق کی۔

 

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ‘ میرا تعلق اوکاڑہ سے ہے اور لاہور آنے کے بعد میری زندگی میں ایک بدلاؤ آیا ہے۔ میرے لیے لاہور مختلف مواقعوں کے اعتبار سے ایک بہت بڑا شہر ثابت ہوا ہے۔’ بتایا جاتا ہے کہ سٹی ٹریفک پولیس لاہور اس وقت پنجاب کے سب سے زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ ان اہلکاروں نے مختلف مضامین میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں جبکہ کئی اہلکار بین الاقوامی تحقیقی رسالوں میں مقالے بھی شائع کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد افتخار اعوان نے یونیورسٹی آف کراچی سے سپورٹس سائنسز میں’ فٹبال کے کھلاڑیوں کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی و معاشرتی عوامل پر مبنی کامیابیوں سمیت ناکامیوں’ پر پی ایچ ڈی مقالہ لکھا ہے۔ آج کل وہ سٹی ٹریفک پویس میں بطور انسپیکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

 

ان کے مطابق ‘لاہور سٹی ٹریفک پولیس دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی فورس ہے۔’ اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ‘ہمارے ہاں 9 پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہیں، تقریباً دس کے قریب اہلکار ابھی پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ 150 سے زائد اہلکاروں نے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے جبکہ باقی 80 فیصد اہلکار ماسٹرز ڈگری یافتہ ہیں۔’ سٹی ٹریفک پولیس کے سربراہ کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز بھی اپنے محکمے میں موجود ان اعلیٰ تعلیم یافتہ وارڈنز کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔جب یہ افسران بھرتی کیے گئے تو تقریباً تمام گریجویٹ تھے۔ یہ ایک اچھے مقابلے کے عمل سے گزر کر یہاں آئے ہیں۔

 

یہ نوجوان اور پڑھے لکھے ہیں جبکہ ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی موجود ہے۔’ ٹریفک انسپکٹر ڈاکٹر آصف اقبال نجی یونیورسٹی سے ریاضی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر آصف اب تک پانچ تحقیقی مقالے شائع کر چکے ہیں اور مزید دو مقالوں پر تحقیق کرر ہے ہیں۔ انہوں نے ٹریفک سگنلز کے حوالے سے بھی ایک انوکھی تحقیق کی ہے۔ اردو نیوز کو انہوں نے بتایا ‘میرا ایک تحقیقی مقالہ خودکار ٹریفک سگنلز پر شائع ہو چکا ہے جس میں مَیں نے ٹریفک سگنلز کو گاڑیوں کی تعداد اور حرکت کو دیکھ کر خودکار نطام کے تحت اشارے کرنے کے عمل پر تحقیق کی ہے۔’ ڈاکٹر عابد نذیر کے مطابق ‘ارادہ مصمم ہو تو پھر راستے کی دشواریاں حائل نہیں ہوتیں۔’ اردو نیوز کو انہوں نے بتایا ‘میرے لئے آٹھ یا سولہ گھنٹے کھڑے ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

 

میں نے اپنی ملازمت کے دوران ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اس دوران ہمیں محکمے کی جانب سے خوب حمایت حاصل رہی۔’ یہاں پی ایچ ڈی اور ایم فل ڈگری یافتہ اہلکاروں کو محکمے کی طرف سے الاؤنس بھی دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عابد نذیر بتاتے ہیں کہ ملازمت کے دوران کبھی ان کی ڈیوٹی، کمائی اور تعلیم متاثر نہیں ہوئی۔ سٹی ٹریفک پولیس کے سربراہ کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز کے مطابق محکمے کی جانب سے ان ٹریفک وارڈنز کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے ہفتہ وار اور سالانہ چھٹیوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ ان کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کی آزادی مل سکے۔ انہوں نےاردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ‘ہم انہیں غیر ضروری دباؤ میں نہیں رکھتے۔ کسی بھی شخص کی صلاحیتیں اسی وقت ابھر سکتی ہیں جب اسے اچھا ماحول دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے افسران جب اعلیٰ تعلیم کی خواہش ظاہر کرتے ہیں تو ہماری طرف سے انہیں مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے۔’

 

چیف ٹریفک آفیسر کا مزید کہنا تھا کہ محکمے کی جانب سے ان وارڈنز کی پوسٹنگ سے لے کر شفٹنگ میں رد و بدل تک انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے تاکہ ‘ان کی حوصلہ افزائی ہو اور یہ اپنی تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو مزید بڑھا سکیں۔ٹریفک پولیس کے یہ اہلکار ڈیوٹی کے دوران نہ صرف اپنی پڑھائی جا ری رکھتے ہیں بلکہ اپنے شوق کی تکمیل کے لئے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد رفیق راسخ نے اردو ادب میں ‘مغربی شعری اصناف کا تحقیقی اور تنقیدی جائزے’ پر مقاملہ تحریر کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ٹریفک وارڈن اور ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک شاعر بھی ہیں اور کئی کتابیں بھی تحریر کر چکے ہیں۔

 

ڈاکٹر رفیق راسخ کے بقول ‘ہر چیز کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ ٹریفک اور ادب کا بظاہر کوئی ملاپ نہیں بنتا لیکن یہ سب میں اپنے شوق کی تکمیل کے لئے کر رہا ہوں۔’ ڈاکٹر رفیق راسخ نے اب تک تین کتابیں لکھی ہیں جن میں ایک شعری مجموعہ ‘میں بھی نظم ہوں’ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے جبکہ دو کتابیں زیر اشاعت ہیں۔ ڈاکٹر آصف اقبال بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے وقت کو ایک ایسے انداز میں تقسیم کیا تھا کہ ‘سارے کام تکمیل تک پہنچ جاتے تھے’ اردو نیوز کو انہوں نے بتایا ‘میری کتابیں اور نوٹس ہمہ وقت میرے پاس ہوتے ہیں۔ جب جب مجھے وقت ملتا ہے میں اپنے پوائنٹس نوٹ کرتا ہوں۔ جب ٹریفک کی روانی کم ہو تو میں سٹریٹ لائٹس اور موبائل کی روشنی میں بھی اپنا مطالعہ جاری رکھتا ہوں۔’ ڈاکٹر محمد رفیق راسخ ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد لائبریری کا چکر ضرور لگاتے ہیں تاکہ وہاں کچھ دیر بیٹھ کر مطالعہ کیا جاسکے۔ ‘رات کو ڈیوٹی کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ صبح کے وقت لائبریری جا کر کتابیں پڑھنے میں ہمیں آسانی ہوتی ہے۔’

 

سٹی ٹریفک پولیس چیف کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز کے مطابق ان اعلی تعلیم یافتہ افسران کو مختلف تحقیقی ٹیموں کا حصہ بنا کر ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ ‘ہماری ایک ٹیم حادثات کے حوالے سے ڈیٹا جمع کررہی ہے۔حادثات کے وجوہات، نوعیت اور ہاٹ سپاٹس سمیت ان کی روک تھام کے لئے ان افسران کی خدمات حاصل کیں جا رہی ہیں۔’ وہ بتاتے ہیں کہ ان افسران کی فنی مہارتوں اور تحقیقی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر محکمہ معنی خیز اقدمات اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ‘ان کے مشوروں اور تجاویز کو بنیاد بنا کر ہم ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیں کہ جن کی مدد سے شہریوں کی زندگیاں آسان بنائی جا سکیں۔

 

 

Check Also

پاسپورٹس میں سابقہ شوہر کے نام کا باکس بھی ہو گا: ڈی جی پاسپورٹس

ڈی جی پاسپورٹس مصطفیٰ جمال کا کہنا ہے کہ شادی شدہ خاتون کا پاسپورٹ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے