حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف نے نگران حکومت کے اختیارات میں مجوزہ اضافے سے متعلق ترمیم سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے جبکہ اپوزیشن جماعت تحریک انصاف نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ منگل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جس طرح ترمیم 230 لائی جا رہی تھی، اس نے تو بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’ایک شخص کا نام نگران وزیراعظم کے لیے گردش کرنے لگا۔ ایسا لگا جیسے یہ 90 روز کے لیے نہیں پھر 9 ماہ اور 9 سال تک معاملے جانے کے خدشات پیدا ہو گئے۔‘ ’اس حوالے سے تحریک انصاف کے بیرسٹر علی ظفر کی سربراہی میں الیکشن ایکٹ کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں خوش اسلوبی سے بحث کی گئی۔ جو کچھ اس کمیٹی میں فیصلے ہوئے ہیں وہی آرٹیکل یہاں پیش ہوں گے۔‘ ’میں نے سینیٹر مشتاق سے بھی کہا تھا کہ اچھی ترامیم آئیں گی۔ سیکشن 230 میں جیسی ترامیم آئی ہیں، اس سے غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا۔‘ ’نگران سیٹ اپ غیرجانبدار ہوتا ہے تاکہ کسی کو شک نہ رہے۔ نگران سیٹ کو ملک چلانے کی اجازت نہیں ہوتی وہ صرف الیکشن تک حکومت ہولڈ کرتے ہیں۔‘ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’اس ترمیم میں کہا گیا گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے فیصلے کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی بھی بل پارلیمنٹ میں آئے، اسے ممبران کو بھجوایا جائے۔ ہم مختلف ملکوں کے سفراء نہیں بلکہ اس ایوان کے منتخب نمائندے ہیں۔ یہ انڈر دی کارپٹ نکلنے لگا تھا جس کی نشاندہی کی گئی۔‘
پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے کہا کہ مجھے اس پر شدید تحفظات ہیں۔ ’اگر ایسا ہوا تو یہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ہو گا۔‘ پیپلز پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’میں ایک منٹ کے لیے بھی کمیٹی سے باہر نہیں گیا۔ سیکشن 230 میں ترمیم کمیٹی میں زیر بحث نہیں آئی۔‘ اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے وزیر قانون بیرسٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’سینیٹر علی ظفر سفر پر جا رہے تھے، ہم نے کچھ ایجنڈا مزید چلانا تھا۔ ہم نے صرف یہ کہا شیڈول آنے تک تبادلے ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’صرف جاری رہنے والی چیزوں کو آگے بڑھتے رہنا چاہیے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کی صورت میں ہم تین ماہ کے لیے ملکی نظام کو بند نہیں کر سکتے۔‘
حکومت نے انتخابی اصلاحات کے تحت الیکشن ایکٹ 2017 میں کی جانے والی ترامیم کے لیے نیا بل لانے کے بجائے انہیں مشترکہ اجلاس میں پہلے سے زیر التوا بل میں ترمیم کے ذریعے شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ منگل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ بل اور اس میں کی جانے والی ترامیم ایجنڈے کا حصہ تھیں لیکن قواعد کے تحت ترامیم ایوان میں پیش کرنے سے 24 گھنٹے قبل ارکان کو آگاہ نہ کرنے کی وجہ سے بل کل تک مؤخر کر دیے گئے۔سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیرصدارت مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رضا ربانی نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ آج کچھ قانون سازی کی بازگشت ہے اور کوئی سپلیمنٹری ایجنڈا لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ مشترکہ اجلاس کو بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی طرح ربڑ سٹیمپ بنانا چاہتے ہیں۔ جو قانون سازی کی جانی ہے وہ بل مسودہ کی صورت میں ہمارے پاس نہیں ہے۔‘
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے رضا ربانی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ کو انگوٹھا چھاپ یا ربڑ سٹیمپ نہ بنائیں۔ ہمیں تو ایجنڈا تک نہیں ملا، اس کو دو روز کے لیے ملتوی کر دیں۔ ایوان میں ملک کی مجموعی امن و امان کی صورتحال پر بحث کریں۔‘ حکمران اتحاد میں شامل جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’آج ہم قومی وقار کی بات کی جارہی ہے مگر پہلے کہا جاتا تھا کہ آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔ گزشتہ دور میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ سیٹیں تبدیل ہونے کے باوجود پارلیمان کا جنازہ نکل رہا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ ہم چائے پینے آئے ہیں یہاں اور واپس چلے جائیں گے۔ یہ کیسا ایجنڈا ہے جو یہاں آ کر پتہ چلتا ہے۔ ہمیں کل بھی منظور نہیں تھا کہ پارلیمنٹ کے ممبران کو ہانک کر لایا جائے۔ ہمیں آج یہ بھی منظور نہیں کہ ان سے انگوٹھا لگوایا جائے۔‘
تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جو قانون لائے جاتے ہیں اکثریت کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ ’ہمارا کام ہر مسٸلے کو باہمی مشاورت سے حل کرنا ہے۔ مجھے لگتا ہے بھیڑوں کو ہانکا جا رہا ہے۔ یہاں قانون سازی ہو رہی ہے لیکن ہمارے سامنے قانون نہیں۔ ایسے دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا۔‘ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ارکان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ ہمارے دل کے قریب ہے۔ 2018 کے الیکشن میں شفافیت کی کمی تھی۔ اس الیکشن پر سیاسی جماعتوں کو بڑے اعتراضات تھے۔ الیکشن ایکٹ کی تمام ترامیم اتفاق سے منظور ہوئی تھیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’کامران مرتضیٰ صاحب نے ایک میٹنگ تک نہیں چھوڑی اور آج کہتے ہیں ایوان کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔‘ انہوں نے ان ترامیم کو پہلے سے زیر التوا بل میں شامل کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اسمبلی کے پاس وقت کم ہے اور ان میں بہت سی ترامیم الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی تجویز کی گئی ہیں۔ اس لیے الگ سے بل لانے کے بجائے تمام جماعتوں کی جانب سے اتفاق رائے کے بعد ہی پہلے سے موجود بل جو مشترکہ اجلاس کے پاس پہلے ہی موجود ہے میں شامل کر رہے ہیں۔ اس دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’چونکہ ترامیم کا مسودہ ارکان میں تقسیم نہیں ہوا، اس لیے اسے کل تک ملتوی کر دیا جائے۔ سپیکر نے تمام جماعتوں کے نمائندوں سے مشاورت کے بعد ترامیم کل تک مؤخر کر دیں۔‘ بعد ازاں مشترکہ اجلاس بدھ ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔