ابوزر خان کو ایک ایسی موت ملی جس کا 11 سال کا یہ کمسن محنت کش مستحق نہ تھا، وہ تو سکول سے چھٹیوں کے دوران چپس اور پاپڑ بیچ کر اپنے باپ کا سہارا بن رہا تھا۔ اس نے بھی کچھ خواب دیکھے تھے؛ بڑا افسر بننے کا خواب، اپنے گھر کی غربت مٹانے کا خواب مگر اس کی ٹوکری میں موجود چپس اور پاپڑوں کی طرح اس کے یہ خواب بھی اس وقت بکھر گئے جب خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں گزشتہ روز اتوار کو ہونے والے بم دھماکے میں وہ بھی مرنے والوں میں شامل تھا۔ ابوزر ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، وہ سات بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کے علاوہ گھر کا کفیل بھی تھا۔
وہ اپنی موت سے کچھ لمحے قبل تک گھر کی گزربسر کے لیے جلسے میں گھوم پھر کر چپس اور پاپڑ بیچ رہا تھا۔ جمعیت علمائے اسلام کے اس ورکرز کنونشن میں شرکا کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور کئی اہم رہنما تقاریر کر چکے تھے اور کچھ رہنمائوں نے فی الحال تقریر کرنی تھی۔ رکن قومی اسمبلی مولانا جمال الدین تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے جو فی الحال پنڈال میں نہیں پہنچے تھے جب سٹیج کے قریب ہی زوردار بم دھماکہ ہوا اور پنڈال میں بھگدڑ مچ گئی۔اس کے کچھ ہی دیر بعد امدادی سرگرمیاں شروع ہوئیں اور ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اور ہر جانب بکھرے اعضا جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بم دھماکے کی خبروں کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ضلع باجوڑ کے علاقے زندگی موڑ کے رہائشی 11 سالہ ابوذر کی تصاویر کے ساتھ اس کی گمشدگی کا اعلان کیا جانے لگا۔
چند گھنٹے گزرے تو یہ پریشان کن انکشاف ہوا کہ کمسن ابوذر خان بھی اس خودکش دھماکے میں جان سے جانے والوں میں شامل ہے۔ ورکرز کنونشن میں خودکش بم دھماکے کے بعد شہر بھر میں سوگ کا سماں ہے اور سوشل میڈیا پر ہلاک ہونے والے کنونشن کے دیگر شرکا کے ساتھ ساتھ ابوذر خان کی تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں اور صارفین شدید صدمے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ابوذر خان کی پرانی تصاویر کے ساتھ ساتھ ان کی ایک حالیہ تصویر بھی شیئر کی جا رہی ہے جس میں یہ بچہ ایک تابوت میں سفید کفن میں لپٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ابوذر کے والد جاوید خان اپنے علاقے سے دور لوئر دیر میں ریڑھی لگاتے ہیں اور اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ جاوید خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ‘میرا بیٹا چھٹی جماعت کا طالب علم تھا، اور ان دنوں سکول کی چھٹیاں تھیں تو وہ علاقے میں چپس اور پاپڑ وغیرہ فروخت کرنے کے لیے جلسہ گاہ گیا تھا۔’
جاوید خان، جو ملی جلی پشتو اور اردو زبان میں گفتگو کر رہے تھے، نے بتایا کہ ابوذر نے کل دوپہر اپنی بہن سے کہا کہ مجھے میرے کپڑے چاہئیں۔ کپڑے بدلنے کے بعد 2 بجے کے قریب وہ گھر سے باہر نکل گیا۔’ ‘جس مقام پر دھماکہ ہوا وہ ہمارے گاؤں کے قریب ہی واقع ہے، دھماکے کی اطلاع ملتے ہی میں بھاگا بھاگا ہسپتال پہنچا اور زخمیوں میں اپنے بچے کو تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملا۔’ انہوں نے بتایا، ‘میں نے اس کے بعد مردہ خانے کا رُخ کیا تو چار پانچ لاشیں پڑی ہوئی تھیں، اور وہاں میں نے اپنے بیٹے کو اس کے کپڑوں کے رنگ سے پہچان لیا۔’ ابوزر خان کے لیے رزق کی تلاش موت کا پروانہ ثابت ہوئی۔ ایک ایسی موت اس کے نصیب میں آئی جس کا تصور کرنا بھی آسان نہیں۔ یہ ایک کمسن کی موت نہیں ہے، یہ اس کی بہنوں کے ارمانوں کا قتل بھی ہے، اس کے باپ کی نم آلود آنکھوں میں کچھ خواب ٹھہر سے گئے ہیں اور اس کی ماں شاید اب کبھی مسکرا نہ سکے کہ ان کا ابوزر اب اس دنیا میں نہیں رہا۔