Breaking News
Home / کالمز / توشہ خانہ کیس: منصفانہ سماعت پر گہرے شکوک و شبہات

توشہ خانہ کیس: منصفانہ سماعت پر گہرے شکوک و شبہات

(سید مجاہد علی)

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا کے بعد ، انہیں گرفتار کر کے اٹک جیل پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ اچانک اور غیر متوقع طور پر سامنے آیا ہے۔ شاید اسی لئے عمران خان کے وکلا نے اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کے بار بار متنبہ کرنے کے باوجود دلائل دینے کے لئے پیش ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

عمران خان نے اس مقدمہ میں الزامات کے میرٹ پر سوال اٹھانے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی بجائے تکنیکی بنیادوں پر عدالتی جھنجھٹ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن آج وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ عدالتی فیصلہ کس حد تک حقائق و شواہد کی بنیاد پر استوار ہے اور عمران خان کیا واقعی اس جرم کے مرتکب ہوئے تھے، جس کی سزا میں اب انہیں جیل میں بند کر دیا گیا ہے، اس فیصلہ کو سیاسی نقطہ نظر سے ہی پرکھا جائے گا۔ اس کی قانونی حیثیت اور میرٹ کا معاملہ مسلسل نظر انداز ہو گا۔ اسلام آباد کی عدالت سے ملنے والی اس سزا کے بعد شق 63 اے کے تحت وہ پانچ سال کے لئے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے بھی نااہل ہو گئے ہیں۔ ہائی کورٹ میں اپیل کے نتیجہ میں ریلیف نہ ملنے پر عمران خان اس سال کے دوران منعقد ہونے والے متوقع انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں رہیں گے۔ اسی طرح جیل میں بند رہنے کے سبب شاید وہ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کی قیادت بھی نہیں کرسکیں گے۔

عمران خان ملک کے چوتھے وزیر اعظم ہیں جنہیں کسی نہ کسی الزام میں سزا دے کر سیاست سے علیحدہ کرنے کا اہتمام ہوا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں رائے عامہ تقسیم رہے گی کہ یہ فیصلہ کس حد تک فیئر ٹرائل کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ایڈیشنل سیشن جج نے جس عجلت میں فیصلہ کا اعلان کیا ہے، بادی النظر میں اس طرز عمل کو متوازن اور انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دینا مشکل ہو گا۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کو اس مقدمہ کے علاوہ دیگر مقدمات میں بھی عدالتوں سے غیر معمولی ریلیف ملتا رہا ہے۔ انہیں عدالتی کارروائی سے غیر حاضری کی اجازت بھی دی جاتی رہی ہے اور ان کے وکلا کو دلائل دینے کے لئے بھی متعدد مواقع دیے گئے۔

اس کے باوجود کسی ملزم کی غیر حاضری میں ایسے ہائی پروفائل کیس میں اچانک فیصلہ کا اعلان اور فوری بعد لاہور سے عمران خان کی گرفتاری سے شبہات کی شدت اور سنگینی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ شبہات ملکی نظام میں من پسند فیصلے کروانے کے تاریخی پس منظر کی وجہ سے بھی ضرور سامنے آتے لیکن اگر متعلقہ جج عجلت اور جھنجھلاہٹ میں آج ہی اس فیصلہ کا اعلان کرنے کی بجائے، خود بھی مقدمے کے حقائق پر غور کرتے اور عمران خان کو سزا دیتے وقت ان کی عدالت میں حاضری یقینی بنانے کا اہتمام بھی کر لیتے تو ان شبہات کی شدت میں اضافہ کی بجائے کمی واقع ہو سکتی تھی۔

اس حوالے سے یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کو جج ہمایوں دلاور کی طرف سے اس مقدمہ کے قابل سماعت قرار دینے کا پرانا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے، یہ معاملہ دوبارہ اسی جج کی عدالت میں بھیجا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اگرچہ عمران خان کے وکلا کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا کہ مقدمہ کو ہمایوں دلاور کی عدالت کی بجائے کسی دوسرے جج کی عدالت میں بھیجا جائے لیکن جج صاحب کو آج اس مقدمہ کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پہلے اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ یہ مقدمہ قابل سماعت ہے یا نہیں۔ اس کے بعد انہیں ان شواہد پر غور کرنا تھا جو الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش کیے گئے تھے جن کے تحت عمران خان نے توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کو مسلسل دو سال اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا۔

جج ہمایوں دلاور کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میں پہلے اس معاملہ کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں غور کرنا تھا۔ البتہ عمران خان کے وکلا آج صبح سے عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ بار بار مہلت دینے کے باوجود جب عمران خان کے وکلا نہیں آئے تو جج نے دلائل کا حق ختم کر کے فیصلہ کرنے کا عندیہ دیا اور اس مقصد کے لئے دن بارہ بجے تک کا وقت مقرر کیا۔ ساڑھے بارہ بجے جج ہمایوں سعید نے ’محفوظ کردہ‘ فیصلہ سنا دیا جس میں عمران خان کو قصور وار قرار دیتے ہوئے انہیں الیکشن ایکٹ کی شق 174 کے تحت تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی۔ جج نے جو مختصر فیصلہ جاری کیا ہے اس میں لکھا ہے کہ ’عمران خان کے خلاف الزامات کسی شبہ کے بغیر ثابت ہو گئے ہیں۔ اپنے اثاثے چھپا کر انہوں نے بدعنوانی کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے 21۔ 2020 کے گوشوارے میں الیکشن کمیشن کو غلط معلومات فراہم کیں۔ ان کی بددیانتی کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہو گئی ہے‘ ۔

گوشوارے میں ناقص یا غلط معلومات فراہم کرنے کی بنیاد پر کسی سیاسی لیڈر کے بارے میں ’بددیانت‘ جیسا سخت لفظ استعمال کر کے عدالتی فیصلہ کے جواز کو کمزور کیا گیا ہے۔ عمران خان پر انتخابی ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔ کسی بھی وجہ سے ان کے وکلا نے اس الزام پر دلائل نہیں دیے تھے۔ اس لئے عدالتی فیصلہ شواہد، حقائق اور واقعات کی یک طرفہ تفہیم اور دلائل کی بنیاد پر ہی استوار سمجھا جائے گا۔ اب ہائی کورٹ کو دیکھنا ہو گا کہ ایڈیشنل سیشن جج کا یہ طرز عمل کس حد تک قانونی طریقہ کار اور انصاف کے متوازن طریقے سے مطابقت رکھتا ہے۔ بادی النظر میں یہ فیصلہ قانون کی بجائے ذاتی تعصب اور جج کی ذاتی ہٹ دھرمی کا نمونہ کہا جائے گا۔

یہ درست ہے کہ صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہونے والی عدالتی کارروائی کے دوران دیے گئے متعدد وقفوں کے باوجود عمران خان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے لیکن کیا وکیلوں کی اس ’کوتاہی‘ کی سزا کسی ملزم کو دینا جائز رویہ کہا جا سکتا ہے؟ عدالت کو پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میں اس مقدمہ کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کرنا تھا۔ یہ طے کرنے کے بعد کہ یہ معاملہ قابل سماعت ہے، ان شواہد کا جائزہ لینا تھا اور دلائل سننا تھے کہ عمران خان کس حد تک متعلقہ قانون یا ضابطے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جج ہمایوں دلاور نے البتہ عمران خان کے وکلا کی غیر حاضری کو عذر بنا کر مقدمہ کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کرنے کے ساتھ ہی عمران خان کو گناہ گار قرار دینے کا فیصلہ بھی صادر کر دیا۔ اس طریقہ کو متعصبانہ اور غیر منصفانہ کہا جائے تو غیر مناسب نہیں ہو گا۔

یوں بھی جج صاحب نے عمران خان کے وکلا کو دن بارہ بجے تک پیش ہونے کی آخری مہلت دی تھی۔ اصولی طور سے انہیں یہ مہلت گزرنے کے بعد عمران خان کا حق دفاع ختم کر کے مقدمہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ پہلے وہ اس مقدمہ کو قابل سماعت قرار دینے کا حکم جاری کرتے۔ اس کے بعد مقدمہ کے میرٹ پر دلائل دینے کے لئے سماعت کی نئی تاریخ کا اعلان کرتے۔ اس طرح عمران خان اور ان کے وکلا کو بھی اندازہ ہوجاتا کہ اگر وہ عدالتی کارروائی کے بارے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے تو عدالت انہیں اپنی بات کہنے کے حق سے محروم بھی کر سکتی ہے۔ لیکن جج ہمایوں دلاور نے دونوں کام ایک ہی وقت میں کرنا ضروری خیال کیا جو نہایت پریشان کن طرز عمل ہے۔

یوں بھی فیصلہ کا اعلان ساڑھے بارہ بجے کیا گیا جبکہ بارہ بجے تک جج صاحب عمران خان کے وکلا کا انتظار کر رہے تھے۔ سوچنا چاہیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی جج صرف تیس منٹ میں مقدمہ کا پورا ریکارڈ دیکھنے کے بعد مختصر حکم بھی تحریر کر لے اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا جائے؟ اس عجلت سے تو ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ جج پہلے سے ہی فیصلہ لکھ چکے تھے اور عمران خان کے وکلا کی غیر حاضری کو عذر بنا کر کسی بھی طرح جلد از جلد اس کا اعلان کرنا چاہتے تھے۔ اس جلد بازی میں انہوں نے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ اس طریقہ کار پر سوال اٹھیں گے اور ان کی کوتاہیوں پر انگلیاں اٹھائی جائیں گی۔

عمران خان کے خلاف موجودہ فیصلہ ماضی میں سیاسی لیڈروں کو دی جانے والی سزاؤں کے طریقہ کار سے مختلف نہیں ہے۔ اس مقدمہ کا کسی ایک سیاسی لیڈر کے خلاف ہونے والی کارروائی سے موازنہ بے معنی ہو گا کیوں کہ عدالتی طریقہ کار بجائے خود اپنی بے چارگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس ملک میں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے لیکن طاقت ور سیاسی آوازوں کو دبانے کے لئے بار بار ایک ہی طریقہ اختیار کرنے کی ریاستی حکمت عملی سخت افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ عمران خان نے جو بھی غلطیاں کیں، انہیں ضرور ان کی سزا ملنی چاہیے لیکن ملک کے کسی بھی دوسرے شہری کی طرح انہیں فیئر ٹرائل کا حق ملنا چاہیے جو موجودہ معاملہ میں بظاہر انہیں حاصل نہیں ہوا۔ یہ عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ عمران خان کے وکلا نے کوتاہی کی یا یہ کہ انہوں نے تکنیکی بنیاد پر مقدمہ کو لٹکانے کی کوشش کی۔ یہ کوششیں بہر حال موجودہ عدالتی نظام کے فریم ورک میں رہ کر کی گئی تھیں، اس لئے ان کی بنیاد پر کسی ملزم کو عدالتی جبر کا نشانہ بنانا قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

ملکی جمہوری تاریخ میں آج کا دن بلاشبہ ایک نئے سیاہ باب کا اضافہ ہے۔ 2018 میں ایسے ہی ہتھکنڈے اختیار کر کے نواز شریف کو نااہل کیا گیا تھا اور انتخابات میں شریک ہونے سے روکا گیا تھا تاکہ مسلم لیگ (ن) کو ناکام بنا کر تحریک انصاف کی کامیابی کا راستہ ہموار کیا جائے۔ اس طریقہ کار اب ’عمران پراجیکٹ یا ہائبرڈ نظام‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اب انتخابات سے فوری پہلے عمران خان کو سزا دے کر جمہوری نظام کو ایک خاص ڈھب سے چلانے کے لئے ایک نیا وار کیا گیا ہے۔ یہ طریقہ کار عدالتی نظام پر عوام کے اعتبار کو پارہ پارہ اور آئینی جمہوریت کے ذریعے عوامی حکمرانی کے خواب کو منتشر کرے گا۔

امید کرنی چاہیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلی فرصت میں عمران خان کو جائز قانونی ریلیف فراہم کرے گی۔ اور عدالتوں کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ بنانے کی حوصلہ شکنی کر کے، ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا حوصلہ کیا جائے گا۔بشکریہ ہم سب نیوز

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے