(تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم)
ہم جنس پرستی ایک ایسی لعنت ہے، جس کے بارے میں تمام ادیان میں مذمت کی گئی اور اسے نہ صرف غیر فطری بلکہ ایک سنگین جرم اور گناہ تصور کیا گیا ہے۔ مغربی سیاسی افکار میں ماڈرن سویلائزڈ ریاستوں کا جو تصور پیش کیا گیا ہے، اس میں پہلی بنیاد جمہوریت ہے، جس کی تعریف ہر مغربی حکومت کے ہاں اپنی علیحدہ سے موجود ہے۔ اب اس لولی لنگڑی جمہوریت کے بعد دوسرا اہم نکتہ جو اس فلسفہ میں بیان کیا جاتا ہے، وہ انسانوں کی منشا یعنی انسانی آزادی اور پھر اسی ذیل میں انسانی حقوق کا چیپٹر سامنے آتا ہے۔ حالانکہ انسانی حقوق کی بات کی جائے تو اسلام سے زیادہ انسانی حقوق کا تصور کسی اور دین میں یا کسی بھی مغربی فلسفہ میں موجود ہی نہیں ہے۔ ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، اس کے بعد موضوع کی طرف چلیں گے۔ مغربی سیاسی افکار کی اینٹ پر بننے والی عمارت کی بنیاد میں من پسند قسم کی جمہوریت اور انسانی حقوق کے باب میں ہمیں بچوں کے حقوق پیدائش کے بعد ملتے ہیں کہ مثلاً بچہ پیدا ہو، اسے زندہ رہنے کا حق ہے، والدین کا فرض ہے کہ اس کی دیکھ بھال کریں، تعلیم دیں، اچھی زندگی دیں وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ دنیاوی نظریات اسلام کے آفاقی اور عالمگیر تصور انسانی حقوق سے بہت دور ہیں۔
اسلام بچے کی پیدائش سے قبل شادی کے مراحل میں ہی تاکید کرتا ہے کہ خاندانوں کا تعین دیکھ بھال کر کیا جائے، تاکہ اچھی اولاد میسر ہو، پھر جب ازدواج ہو جائے تو رحم مادر میں بچہ کی موجودگی سے ہی انسان اور اس بچہ کے حقوق کا تصور وجود رکھتا ہے، یعنی اس کی اچھی دیکھ بھال ماں کے شکم سے شروع کرنے کی تعلیم ہے۔ لہذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ مغربی سیاسی افکار کی دنیا میں چاہے جمہوریت ہو یا انسانی حقوق کی بات ہو، سب کچھ کھوکھلا اور دھندلا ہے، جہاں پر ہر کسی نے اپنی من پسندانہ چیزوں کو اپنا لیا ہے اور غیر پسند چیزوں کو چھوڑ دیا ہے۔
ہم جنس پرستی بھی مغربی دنیا کے کھوکھلے انسانی حقوق کی ابواب کی ایک اختراع ہے۔ انسانی آزادی کو پستی سے شمار کیا جانا کیسے انسانی حقوق میں شمار کیا جا سکتا ہے۔؟ فطرت کو ٹھکرا کر غیر فطرت پر کس طرح انسانی آزادی اور رشد حاصل کیا جاسکتا ہے۔؟ یہ تمام باتیں مغربی دنیا اور اس کے سیاسی افکار مرتب کرنے والے فلسفی سمجھنے سے عاری ہیں۔ شاید ماضی میں موجود فلسفیوں کے ہاں ایسی ابحاث نہ تھیں، لیکن موجودہ دور کے ماڈرن نام نہاد مفکرین نے آزادی کے معنی فحاشی، عریانیت اور پست اخلاقی سے تعبیر کیا ہے۔ یہ مغربی رہی رہی سہی تہذیب کو بھی نیست و نابود کر رہا ہے۔
ہم جنس پرستی کی اصطلاح موجودہ زمانہ میں شد و مد کے ساتھ سنائی دے رہی ہے۔ مغربی دنیا سے شروع ہونے والی شیطانی خرافات کو مشرق اور افریقی ممالک میں تیزی کے ساتھ امپورٹ کیا جا رہا ہے۔ بہت سے ممالک اس کام کے لئے موزوں بھی ہیں، یعنی مشرق میں بھارت ایک بڑی آبادی رکھنے والا ملک ہے، جہاں ہم جنس پرستی عروج پر پہنچ چکی ہے اور ہندوستان کی سپریم کورٹ اس کے تحفظ کے لئے فیصلہ بھی سنا چکی ہے۔ ہم جنس پرستی کو بنیادی طور پر مغربی حکومتوں میں اولین امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غاصب صیہونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کو اس کام کا مرکز قرار دیا گیا ہے، جہاں سے پوری دنیا میں اس شیطانی کام کو پھیلانے کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ باقاعدہ مالی و دیگر معاونت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اسرائیل ہم جنس پرستی کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہا ہے۔ مغربی دنیا ہم جنس پرستی کے پھیلاؤ کے ذریعے پوری دنیا میں شیطانی ایجنڈا کی تکمیل کو انجام دینا چاہتی ہے۔ مغربی دنیا جو کہ اپنی تہذیب کو گم کرچکی ہے، اب دنیا کی دیگر اقوام اور ان کی تہذیب کو نیست و نابود کرکے اقوام کو پستی میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ ہم جنس پرستی کے ہتھیار کو دنیا کی تہذیبوں کے خاتمہ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور اسرائیل کو مرکز قرار دینے کا ایک مقصد شاید اسرائیل کی جانب سے دنیا کے اقوام کی توجہ ہٹانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ میں موجود غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مندوب نے پاکستان کو نشانہ بناتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں ٹرانسجینڈر یعنی جو کہ ہم جنس پرستی کی ایک اصطلاح میں شمار کیا جاتا ہے، اس سے متعلق پابندیوں یا رکاوٹوں کو انسانی حقوق کی پائمالی قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ پاکستان پر اس معاملہ پر دباؤ ڈالے۔ پاکستان ہمیشہ سے ہی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا نظریاتی دشمن ہے۔ پاکستان نے آج تک غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ پاکستان کے خلاف اسرائیل نے ہمیشہ سازشیں جاری رکھی ہیں، ہم جنس پرستی کا حملہ بھی اسرائیل کی جانب سے پاکستان کے خلاف ایک گھناؤنی سازش کا ہی حصہ ہے۔ اسرائیل پوری دنیا میں ہم جنس پرست گروہوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور انہیں تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ مغربی حکومتیں انسانی حقوق اور آزادی کے کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر اسرائیل کے اس گھناؤنے کام میں جانتے نہ جانتے ہوئے شریک جرم بن چکی ہیں۔ حالیہ دنوں سوئیڈن میں قرآن مجید کی توہین کرنے والے گروہ کا تعلق بھی ہم جنس پرستوں کی جماعت سے تھا۔
ہولو کاسٹ پر بات کرنا جس طرح اسرائیل نے جرم قرار دے رکھا ہے، اسی طرح دنیا میں اسرائیل کی جانب سے ہم جنس پرستی کے خلاف بات کرنے کو بھی انسانی حقوق کے خلاف بات تصور کرنے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مغربی حکومتوں نے دنیا کو اپنا غلام بنانے کے لئے جہاں مسلح جنگوں کا سہارا لیا ہے، وہاں آج کے زمانہ میں ایک طرف اقتصاد کی جنگ یعنی اقتصادی پابندیوں کے ذریعے اور ساتھ ساتھ تہذیبوں پر حملہ آور ہے، تاکہ دنیا کی تمام اقوام اور حکومتیں عالمی استعمار اور استکباری نظام کے سامنے سرتسلیم خم رہیں اور تمام معاشرے اپنی بنیاد کو کھو بیٹھیں اور مغرب کے ہر طریقہ سے غلام رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک میں ہم جنس پرستی کو روکنا ہوگا، گذشتہ دنوں ٹرانسجینڈر کے عنوان پر پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی بل پیش کیا گیا تھا، جو شریعت کے بر خلاف ہے، جس پر پاکستان کے عوام کو بھی تشویش ہے۔ تمام ذی شعور طبقات کو مشترکہ طور پر صیہونی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔