صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کو 12 اگست تک نگران وزیرِاعظم کا نام دینے کے لیے خط لکھ دیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کا صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف اور اور تحلیل شدہ قومی اسمبلی کے قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض احمد کو کل تک نگران وزیراعظم کا نام دینے کے لیے خط لکھا دیا۔ صدر مملکت نے خط میں لکھا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224 (1) اے کے تحت صدر مملکت وزیراعظم اور قائدِحزب اختلاف کے مشورے سے نگران وزیر اعظم کی تعیناتی کرتے ہیں۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ آئین کے تحت وزیرِاعظم اور قائد حزب اختلاف کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 3 دن کے اندر نگران وزیرِ اعظم کا نام تجویز کرنا ہوتا ہے۔ صدر مملکت نے خط میں لکھا کہ میں نے وزیراعظم کی تجویز منظور کی، 9 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی،وزیرِ اعظم اور قائد حزب اختلاف 12 اگست تک موزوں نگران وزیر اعظم کا نام تجویز کریں۔ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف اور تحلیل شدہ قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کے درمیان نگراں وزیراعظم کے لیے نام کے انتخاب پر مشاورت کا دوسرا دور بھی آج جاری ہے۔ شہباز شریف اور راجا ریاض کے درمیان پہلی ملاقات گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں ہوئی تھی جس کے بعد راجا ریاض نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ انہیں نگراں وزیراعظم کے لیے نام کا فیصلہ کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ راجا ریاض نے کہا تھا کہ وزیراعظم شہباز سے ایک گھنٹہ طویل ملاقات خوشگوار اور سازگار ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعظم کی طرف سے دیے گئے ناموں پر غور کروں گا اور اسی طرح وزیر اعظم میرے بتائے ہوئے ناموں پر غور کریں گے۔ نگراں وزیر اعظم کے لیے زیر غور امیدواروں میں سے کسی کو ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے،
راجا ریاض نے کہا کہ اس معاملے پر پہلی ملاقات کے دوران 6 نام زیر بحث آئے اور یہ سب قابل احترام لوگ ہیں۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہم جمعہ کو (آج) مزید بات چیت کریں گے اور امید کرتے ہیں کہ اس کے بعد چیزیں بالکل واضح ہو جائیں گی۔ واضح رہے کہ وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں سبکدوش ہونے والے اپوزیشن لیڈر کے پاس عبوری وزیراعظم کے نام کا فیصلہ کرنے کے لیے تین دن کا وقت ہے۔ دونوں کی طرف سے کسی نام پر متفق نہ ہونے کی صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا اور اگر کمیٹی کوئی فیصلہ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے پاس کمیشن کے ساتھ شیئر کیے گئے ناموں کی فہرست میں سے نگراں وزیراعظم کا انتخاب کرنے کے لیے دو دن کا وقت ہوگا۔ سیاسی حلقوں میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم شہباز 14 اگست تک اپنے عہدے پر رہنا چاہتے ہیں تاکہ وہ یوم آزادی پر پرچم کشائی کی تقریب میں شرکت کر سکیں، جس کے بعد نگراں وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔ خیال رہے کہ 12 جولائی کو وزیراعظم نے پہلے کہا تھا کہ ان کی حکومت کی مدت 14 اگست کو ختم ہو جائے گی، حالانکہ بعد میں وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ وزیراعظم نے تاریخ غلط لکھی ہے۔ آئین کے مطابق عبوری سیٹ اپ کے سربراہ کی تقرری تک وزیر اعظم شہباز شریف نگراں وزیراعظم کے طور پر کام کر سکتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 94 میں کہا گیا ہے کہ صدر وزیر اعظم سے اس وقت تک عہدے پر فائز رہنے کو کہہ سکتے ہیں جب تک کہ ان کے جانشین وزیر اعظم کے عہدے پر نہیں آتے۔
عبوری سیٹ اپ کے سربراہ کے نام کا فیصلہ کرنے میں تاخیر کی ایک وجہ مسلم لیگ (ن) کی اپنے ہی رہنما کو عہدے پر لانے کی خواہش سمجھی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نگراں وزیر اعظم کی تقرری کے معاملے پر ’تیسرے فریق‘ کی مشاورت سے بات کر رہے ہیں۔ادھر سینیٹ سیکرٹریٹ نے اپنی کمیٹی کے اجلاس نگران حکومت کی تقرری تک ملتوی کر دیے ہیں۔ آج جاری کردہ ایک نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے نتیجے میں، وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت نے عہدہ چھوڑ دیا ہے، مزید برآں، نگران وزیراعظم اور کابینہ کا تقرر ہونا باقی ہے۔ نوٹی فکیشن مین کہا گیا ہے کہ اس لیے مجاز اتھارٹی نے نگراں وزیراعظم اور کابینہ کے نوٹی فکیشن تک سینیٹ کمیٹی کے تمام اجلاس ملتوی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ نوٹی فکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیٹی کو بھیجے گئے بل اور غیر قانون سازی کے کاروبار سے متعلق رپورٹس پیش کرنے کا وقت روک دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز کے اجلاس کے بعد چونکہ دونوں فریقین نے نامزد امیدواروں کے ناموں پر غور کیا تھا، وہیں سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی بھی مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ صادق سنجرانی مضبوط ترین امیدواروں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ چیئرمین ڈارک ہارس ہو سکتے ہے جنہوں نے پہلی بار ڈارک ہارس کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ دیگر امیدواروں میں جلال عباس جیلانی، سابق وزرائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور اسحٰق ڈار، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد، سابق جسٹس تصدق جیلانی، عبداللہ حسین ہارون، پیر پگاڑا اور مخدوم محمود احمد شامل ہیں۔