Breaking News
Home / کالمز / 6 ارب ڈالر اور امریکہ و ایران تعلقات

6 ارب ڈالر اور امریکہ و ایران تعلقات

(ترتیب و تنظیم: علی واحدی)

جوہری معاہدے کی بحالی کے معاملے پر امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ رابرٹ مالی کے جانے کے بعد مذاکراتی عمل کئی ہفتوں تک تعطل اور جمود کا شکار رہا، تاہم ایران کی بلاک شدہ رقوم کے ایران کو واپس دینے کے اقدام نے ظاہر کر دیا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکراتی عمل کا سلسلہ جاری ہے اور پس پردہ کئی اہم اقدامات انجام پا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جون میں عراق سے ایران کے تقریباً تین ارب ڈالر کی واگزاری کے بعد اب ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ مہینوں کی جدوجہد اور علاقائی ممالک کی ثالثی کے ساتھ گہرے مذاکرات کے بعد بالآخر کسی نتیجے پر پہنچا ہے۔ ایران کے چیف جوہری مذاکرات کار علی باقری کنی نے جمعرات کو کہا ہے کہ امریکہ اور ایران نے قیدیوں کے تبادلے اور اربوں ڈالر کے ایرانی اثاثوں کو واگزار کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا: "ایران کو واشنگٹن سے ضروری وعدے موصول ہوئے ہیں کہ امریکہ معاہدے کی پاسداری کرے گا۔”

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے تبادلہ کیے گئے قیدیوں کی تعداد کے بارے میں کہا: "یہ تعداد اہم نہیں ہے۔ کئی مہینوں سے عمان اور قطر کے ذریعے امریکہ کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔” وزیر خارجہ نے کہا: "قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور ہم اس کے لیے کسی پیشگی شرط پر غور نہیں کرتے۔ ہم نے اس سلسلے میں ثالثی فریقوں سے اعلان کیا ہے کہ ہم طے شدہ فریم ورک کے اندر قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا: "اسلامی جمہوریہ ایران کی منجمد رقوم کو جاری کرنے اور ملک کے مالی وسائل پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کا معاملہ جو غیر قانونی طور پر روکے گئے اور ضبط کیے گئے ہیں، یا حتیٰ کہ ان تک رسائی حاصل کرنے کا مسئلہ ہمارے لئے اہم ہے۔ اسی طرح جابرانہ امریکی پابندیوں کے بارے میں بینکوں کی تشویش ہمیشہ سے وزارت خارجہ کے ایجنڈے پر رہی ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے: "بلاک شدہ رقوم کی واگزاری کے بعد ان منجمد فنڈز کے استعمال کا طریقہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اختیار میں ہوگا اور مجاز حکام اس کے خرچ کے حوالے سے مناسب اقدامات کریں گے۔”

اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں ایران کی نمائندگی نے تہران کی ایون جیل سے دوہری شہریت والے قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کی اور کہا: "یہ رہائی کسی تیسرے ملک کی ثالثی سے طے پانے والے معاہدے کے دائرہ کار میں ہوئی ہے، تاکہ فریقین باہمی طور پر 5 قیدیوں کو رہا کریں۔ زیربحث قیدیوں میں "سیامک نمازی، عماد شرقی اور مراد تہباز” تین ایرانی نژاد امریکی شہری ہیں، جنہیں جاسوسی کے الزام میں تہران میں قید کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ دو دیگر افراد کے نام بھی ہیں، جن کے نام خفیہ رکھے گئے ہیں۔ رہائی کی تیاریوں سے واقف لوگوں کے مطابق نامعلوم امریکیوں میں سے ایک سائنسدان اور دوسرا تاجر ہے۔ ان قیدیوں کو جمعرات کو ایون جیل سے تہران کے ایک ہوٹل میں منتقل کیا گیا تھا، انہیں کچھ عرصے کے لیے وہاں رکھا جائے گا اور ایران کی جانب سے مالی وسائل تک دستیابی کو یقینی بنانے کے بعد انہیں قطر میں رہا کیا جائے گا۔

ان تینوں قیدیوں کا دفاع کرنے والے وکیل حجت کرمانی نے بتایا کہ سیامک نمازی نے 8 سال، مراد تہباز نے 6 سال اور عماد شرقی نے 4 سال قید کاٹی۔ سیامک نمازی کو 1995ء میں امریکی حکومت کے ساتھ تعاون کے الزام میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ مراد تہباز کو 2016ء میں دشمن امریکی حکومت کے ساتھ تعاون کے الزام میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ عماد شرقی کو امریکہ کی دشمن حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے جرم میں 10 سال قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

6 بلین ڈالر آزاد کر رہے ہیں
قیدیوں کے تبادلے سے ایرانی فریق کے لیے مالیاتی راہیں بھی کھلیں گی اور باخبر ذرائع کے مطابق تہران میں اپنے شہریوں کی رہائی کے بدلے امریکہ جنوبی کوریا میں ایران کے تقریباً 6 بلین ڈالر کے اثاثے ایک اکاؤنٹ میں منتقل کرے گا۔ یہ رقم قطر کے مرکزی بینک میں ہوگی اور یہ اکاؤنٹ قطری حکومت کے زیر کنٹرول اور ریگولیٹ ہوگا، تاکہ ایران اس رقم کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ادویات اور خوراک وغیرہ کی خریداری کے لیے ادا کرسکے۔ منجمد اثاثوں کی رہائی کے علاوہ ایران کی طرف سے رہا کیے گئے پانچ امریکیوں کے بدلے پانچ ایرانیوں کو امریکی جیلوں سے رہا کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ 2012ء سے 2019ء تک واشنگٹن نے جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کو ایرانی تیل خریدنے کی اجازت دی تھی، لیکن اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی تک تہران کی رسائی روک دی تھی اور معاہدوں کے مطابق یہ رقوم ایران صرف انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق استعمال کرسکے گا۔

امریکی حکام نے بھی قیدیوں کے تبادلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک اہم قدم قرار دیا۔ قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا: ’’یہ صرف ایک ایسے عمل کا آغاز ہے، جس سے مجھے امید ہے کہ امریکی شہریوں کی وطن واپسی ہوگی۔ "اگرچہ انہیں گھر لانے کے لیے مزید کام کرنا باقی ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ان کے ڈراؤنے خواب کے خاتمے کا آغاز ہے۔” تاہم امریکی حکومت کے خلاف ریپبلکنز نے وائٹ ہاؤس پر سخت تنقید کی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا عمل ویانا مذاکرات کے وقت ہی شروع ہوگیا تھا۔ لیکن جوہری مذاکرات کی معطلی اور ایران میں بدامنی کے آغاز کے ساتھ ہی مغربی ممالک نے اس کی مخالفت کی اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بات چیت کچھ دیر کے لیے روک دی گئی تھی، تاہم حالیہ مہینوں میں عمان اور قطر کی ثالثی سے قیدیوں کی رہائی پر مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے اور بالآخر اس حوالے سے معاہدہ طے پا گیا۔

ایران اور امریکہ کے درمیان تیسرے ممالک کی ثالثی کے ذریعے قیدیوں کا تبادلہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے اور ماضی میں بھی امریکی قیدیوں (جن پر جاسوسی کا الزام تھا) یا دوہری شہریت کے حامل افراد کو رہا کیا جاتا رہا ہے۔ ایران اور 5+1 ممالک کے جوہری مذاکرات کے درمیان اگست 2013ء میں ایرانی نژاد امریکی صحافی جیسن رضائیان کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا اور جولائی 2014ء میں جے سی پی او اے معاہدہ طے پانے کے بعد قیدیوں کا تبادلہ جاری رہا۔ اسی سال 26 جنوری کو جے سی پی او اے کے نفاذ کے دن رضایان اور تین دیگر امریکی جاسوسوں کو قیدیوں کے تبادلے کے ایک حصے کے طور پر رہا کیا گیا۔ اس کے علاوہ لبنانی نژاد امریکی شہریت کے حامل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر نزار زکا کو 2014ء میں امام خمینی (رہ) ہوائی اڈے سے امریکہ کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور بالآخر اسے 10 سال قید اور 4 ملین ڈالر سے زائد جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ 2018ء کے آخر میں، یہ قیدی حزب اللہ لبنان کی ثالثی سے جیل سے رہا ہوا اور امریکہ چلا گیا۔

قیدیوں کے تبادلے اور جے سی پی او اے کے درمیان رابطہ؟
قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے ساتھ جوہری مذاکرات کے عمل کے بیک وقت ہونے سے یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا قیدیوں سے متعلق معاہدے اور جے سی پی او اے کے احیاء کا امکان ہے اور کیا اسے مذاکرات کا باب کھلنے کی علامت سمجھا جا سکتا ہے یا نہیں۔؟ اس سلسلے میں بین الاقوامی امور کے ماہر حسن ہانی نے الوقت سائیٹ کے ساتھ گفتگو میں قیدیوں کے تبادلے کے عمل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ عمل خطے کے بعض ممالک کی ثالثی کے بعد عمل میں آیا، جن میں قطر، عمان اور عراق بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: انسانی نقطہ نظر سے ایران بھی خطے کے ممالک کی جانب سے امریکی قیدیوں کو معافی دینے کی کوششوں کا جواب دے چکا ہے، لیکن انہوں نے اس کے لیے پیشگی شرط رکھی ہے۔ علی باقری کا قطر اور عمان کا حالیہ دورہ اور یورپی یونین کے عہدیداروں سے ان کی ملاقات کافی موثر تھی۔ امریکہ اور مغرب کی ظالمانہ پابندیوں کے خلاف ایران کی عظیم قوم کی مزاحمت نے ثابت کر دیا کہ یہ پابندیاں اسلامی جمہوریہ کو مغرب کے سامنے جھکنے پر مجبور نہیں کرسکیں۔

ہانی زادہ نے مزید کہا کہ قیدیوں کا تبادلہ جوہری معاہدوں سے الگ ہے۔ چونکہ جنوبی کوریا، عراق، جاپان اور ہندوستان جیسے ممالک نے امریکہ کی درخواست پر ایران کے 15 ارب ڈالر سے زیادہ کے اثاثے بغیر کسی وجہ کے بلاک کیے ہیں، اس لیے ایران نے امریکی قیدیوں کی رہائی کے خلاف اپنے بلاک شدہ فنڈز کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ یہ فطری بات ہے کہ اس معاملے کا ایران کے ایٹمی معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایران اسے اپنا حق جانتا ہے کہ ایران میں گرفتار امریکی جاسوسوں کی معافی کے بدلے اپنے قیدیوں کا تبادلہ کرے۔ البتہ ہانی زادہ نے قیدیوں کے تبادلے کو جے سی پی او اے کے آغاز کا پیش خیمہ قرار دیا اور کہا: "امریکی جاسوسوں کی رہائی کے بدلے ایران کی بلاک شدہ رقم کی رہائی کو ایران اور امریکہ کے درمیان موجودہ مسائل کے حل کے لیے ایک مثبت قدم سمجھا جاتا ہے۔”

اگر واشنگٹن JCPOA میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہے اور 2015ء کے JCPOA معاہدے کی طرف واپس آتا ہے تو یہ فطری بات ہے کہ ویانا میں مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کے عمل کا آغاز ہوگا۔ اگرچہ امریکہ کی نیک نیتی پر اب بھی شکوک و شبہات موجود ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی ٹیم انتخابات میں اپنی دوبارہ فتح کے لیے اس عالمی معاہدے کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہ جیتنے والا کارڈ JCPOA کے میدان میں ایران اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ہوسکتا ہے، کیونکہ 2018ء میں JCPOA سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دستبرداری نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی حیثیت کو بہت زیادہ دھچکا پہنچایا تھا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ادارے کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Check Also

حزب اللہ کے نصراللہ اسرائیل کے خلاف کب تک اپنے آپ کو روکے رکھیں گے؟

(شہاب الدین صدیقی) غزہ پر اسرائیلی حملے کے پہلے چار ہفتوں تک سید حسن نصراللہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے