آج خاتم الانبیا رحمۃ اللعالمین محمد عربی ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کو قمری تقویم کے حساب سے 1497 سال ہوگئے ۔اُس وقت دنیا کے جو حالات تھے ‘ کلام الٰہی میں اُن کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے کہ ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ۔‘‘ اِس فساد کا بنیادی سبب تمام انسانی معاشروں میں کسی نہ کسی صورت انسانوں پر انسانوں کی خدائی تھا ۔ تاہم عرب کے ریگزاروں سے اُٹھنے والے نبیؐ نے بحکمِ الٰہی تمام انسانی خداؤں کی خدائی کو چیلنج کیا۔ لا اِلٰہ الا اللہ کی صدا بلند کرکے مکہ مکرمہ کی بے آب و گیاہ سرزمین کے باسی نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا ’’یہ ایک کلمہ اگر تم مجھ سے قبول کرلو تو اس کے ذریعے سے تم سارے عرب کو زیر نگیں کرلوگے اور سارا عجم تمہارے پیچھے چلے گا ‘‘۔ پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اِس ہستی کی محض سوا دو عشروں کی جدوجہد کے نتیجے میں پورا عرب پتھر سے تراشے گئے سینکڑوں جھوٹے خداؤں کے سامنے سرجھکانے کی ذلت سے آزاد ہو کرکائنات کے حقیقی فرماں روا کے دامن رحمت سے وابستہ ہوگیا جبکہ روم و ایران جیسی اپنے وقت کی سپرپاورزبھی‘ جہاںانسان اپنے جیسے انسانوںکے خدا بنے بیٹھے تھے‘ نبی عربیؐ کے فرمان کے عین مطابق کلمہ لا اِلٰہ الااللہ کے مقابلے میں سرنگوں ہوگئیں۔ حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ ظلم ختم ہوا اور عدل قائم ہوگیا۔ عہد نبویؐ اور خلافت راشدہ پر مشتمل انسانی تاریخ کے اس مبارک ترین دور میں زندگی کا ہر شعبہ جہل کی گرفت سے نکل کر علم کی روشنی سے منور ہوا۔ امیر و غریب، طاقتور اور کمزور سب یکساں طور پر قانون الٰہی کے تابع قرار پائے۔ ایک ہزار سال تک اس نظام کے علمبردار پوری انسانی برادری کے قائد و پیشوا رہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لیکن دَورِ اوّل کا سامعیار قائم نہیں رہ پایا۔ کمزوریاں بڑھتی گئیں تو خدائی قانون کے مطابق قافلہ انسانی کی قیادت دنیاوی اعتبار سے اہل تر انسانی گروہوں کے سپرد ہوئی اور مسلم دنیا بتدریج ان کے زیر تسلط آتی چلی گئی۔عملی غلامی کے ساتھ ذہنی غلامی بھی مسلمانوں کا مقدر بنی۔ تاہم بادشاہوں کے بجائے عوامی حکمرانی کے دعووں کے ساتھ میدان میں آنے والا جدید مغربی نظام بھی‘ سیاست ومعیشت اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں عام آدمی کی حقیقی فلاح کا ذریعہ ثابت نہیں ہوا اور سرمایہ داری کا خود غرض و سفاک عفریت آج دنیا کا اصل حکمراں ہے۔دنیا کے بیشتر وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ گئے ہیں اور دولت کا یہ اِرتکاز ہوشربا رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ طاقتور قومیں کمزور ملکوں کے وسائل پر قابض ہونے کیلئے بلا تکلف فوج کشی کررہی ہیں۔یوں خاتم الانبیاؐ کے دورکے ڈیڑھ ہزار برس بعد آج دنیا پھر اُسی کیفیت سے دوچار ہے جسے قرآن نے بحرو بر میں لوگوں کے اپنے اعمال کے سبب پھیل جانے والا فساد قرار دیا تھا۔
انسانیت پھر اِس فساد کے خاتمے کیلئے ایسے نظام کی منتظر ہے جس میں سب ایک خدا کے قانون کے پابند ہوں اور دنیا میں حقیقی عدل و مساوات کا دور دورہ ہو۔ لیکن اس کام کیلئے اب کسی نبی کو نہیں آنا۔ختم المرسلین ؐ یہ فریضہ اپنی امت کے سپرد کرگئے ہیںلیکن افسوس کہ کرۂ اَرض پر واقع ساٹھ مسلم مملکتوں میں سے کسی ایک میں بھی عملاً یہ نظام نافذ نہیں۔ اپنے فرضِ منصبی سے یہ غفلت ہی مسلمانوں کی دنیا میں بے وقعتی کا اصل سبب ہے۔ ہم آج بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآنی احکام اور سنت نبویؐ کے مطابق آخرت کی جواب دِہی کے احساس کی بنیاد پر استوار کر لیں تو ہمارے معاشرے سے ظلم، حق تلفی، دھاندلی، کرپشن، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، رشوت، وعدہ خلافی، جھوٹ، دہشت گردی ، بے حیائی اور جنسی بے راہ روی سمیت تمام برائیاں ختم ہوسکتی ہیں اور ہم ایک بار پھر عالم انسانی کے اِمام و راہبر بن سکتے ہیں۔دنیا اور آخرت میں فلاح و کامیابی کا ضامن عید میلاد النبی کا یہی اصل پیغام ہے ۔بشکریہ جنگ نیوز
نوٹ:سی این آئی کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔