پاکستان کی نگران وفاقی کابینہ نے جمعرات کی شام حلف اٹھا لیا ہے جس کے بعد انتخابات کے انعقاد کے لیے قائم کی جانے والی نگران حکومت کی تشکیل کا اہم مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ نگران کابینہ کے اراکین میں سرفراز بگٹی، جلیل عباس جیلانی، شمشاد اختر، جنرل ریٹائرڈ انور علی حیدر، مرتضٰی سولنگی، سمیع سعید، شاہد اشرف تارڑ، احمد عرفان اسلم، محمدعلی، گوہر اعجاز، عمر سیف، ندیم جان، خلیل جارج، انیق احمد، جمال شاہ اور مدد علی شاہ بطور وزیر جبکہ ایئر مارشل ریٹائرڈ فرحت حسین خان، احد خان چیمہ اور وقار مسعود خان بطور مشیر شامل ہیں۔وفاقی کابینہ کے ارکان کے محکموں کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے۔ سرفراز بگٹی داخلہ، جلیل عباس جیلانی خارجہ، شمشاد اختر خزانہ، مرتضٰی سولنگی اطلاعات اور احمد عرفان اسلم قانون کا قلم دان سنبھالیں گے۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ نگران کابینہ میں بہت سے چہرے غیر معروف ہیں اور اس سے پہلے ان کو کبھی کسی اعلٰی سیاسی یا انتظامی عہدے پر نہیں دیکھا گیا۔ کابینہ کے اعلان سے پہلے توقع کی جا رہی تھی کہ اس کے بیشتر ارکان ٹیکنوکریٹس ہوں گے مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ منتخب کیے گیے کئی وزیر ٹیکنوکریٹس ہونے کے ساتھ غیر معروف ہیں جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے ذریعے طویل المدتی اصلاحات کروائے جانے کا امکان ہے۔ سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اس حوالے سے ایک نیوز ادارے کو بتایا کہ کئی غیر معروف ٹیکنوکریٹس کی کابینہ میں شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ طویل عرصے کے لیے کیے جانے والے فیصلوں اور اصلاحات کو یقینی بنائیں گے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ ان لوگوں کو ایک طویل عرصے میں اصلاحات کرنے کے لیے لایا گیا ہے،
نگراں کابینہ کا بنیادی کام تو انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی مدد کرنا ہوتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ان ٹیکنوکریٹس کا ایجنڈا انتخابات سے زیادہ اصلاحات ہے۔‘ تاہم گورننس کے ماہر اور ادارہ برائے پائیدار ترقی پالیسی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد سلہری کہتے ہیں کہ زیادہ غیر معروف لوگوں کی نگران کابینہ میں شمولیت کی ایک بڑی وجہ سیاسی تنازعات سے بچنا ہے۔‘ ’کابینہ میں غیر معروف لوگوں کی اکثریت اس لیے شامل ہے تاکہ غیرجانبداری قائم رہے-
ایک کوشش کی گئی ہے کہ متنازع لوگ نہ ہوں، اور کابینہ پر کسی قسم کا اعتراض نہ آئے۔‘ عابد سلہری سمجھتے ہیں کہ کئی ٹیکنوکریٹس کا انتخاب بہت اچھا ہے اور وہ آنے والے وقت میں ملکی مفاد کی پالیسیاں آگے بڑھانے میں بہت مدد گار ثابت ہوں گے۔ ’شمشاد اختر کا انتخاب بہت اچھا ہے اور وہ ملک کی معیشت سنبھالنے میں اہم کردار ادا کریں گی۔ ہمیں لگ رہا ہے کہ انتخابات میں چھ ماہ تک لگ سکتے ہیں۔ اس صورت میں چھ ماہ بعد آئی ایم ایف پروگرام پر دوبارہ سے بات چیت کرنا پڑے گی اور یہ شمشاد اختر بہت اچھے طریقے سے کر سکتی ہیں۔‘عابد سلہری کا کہنا تھا کہ کابینہ کے بیشتر ارکان کامیاب ٹیکنوکریٹس ہیں اور یہ ان کے لیے اچھا موقعہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں استعمال کریں۔
تاہم سینیئر صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ یہ ٹیکنوکریٹس عام لوگوں کے لیے غیر معروف ضرور ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے لیے ہرگز نہیں۔ ’ان کا انتخاب دو بڑی سیاسی جماعتوں نے مل کر کیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات مستقبل میں ان پر پڑیں گے، لہٰذا انہوں نے ایسے لوگوں کی نامزدگیاں کی ہیں جو مسائل اور اہم فیصلوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔‘ سلمان غنی نے مزید کہا کہ ’جس طرح نگراں وزیراعظم کو سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل ہے اسی طرح نگران کابینہ کے یہ ارکان بھی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کی تائید و حمایت سے منتخب ہوئے ہیں اور اہم فیصلے کریں گے۔‘